امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 8واں دور توقعات کے برعکس بغیر نتیجہ اختتام پذیر ہوا اور دونوں فریقین نے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و فکر کے لئے اگلی نشست پر اتفاق کیا۔ آٹھویں دور میں توقع کی جا رہی تھی کہ 12اگست تک دونوں فریقین کے درمیان نئے سیکورٹی معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے لیکن افغانستان و خطے میں پیدا شدہ پر تشددصورتحال کے سبب دوحہ میں منطقی انجام تک پہنچنے والا آٹھواں دور حتمی ثابت نہیں ہوا۔ ذرایع کے مطابق افغانستان میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر خود کش حملے میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں اور فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری افغان طالبان نے لی تھی۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب دوحہ میں مذاکراتی عمل جاری تھا۔ افغان طالبان کی جانب سے اس خودکش حملے پر امریکا، افغانستان سمیت عالمی برداری نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ جس کے اثرات دوحہ مذاکرات پر بھی پڑے۔ دوسری جانب افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایک حملے میں فراہ کے شیڈو گورنر ملا فصل الرحمن جاں بحق کردیئے گئے تھے۔
نیز امریکی و افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے افغان طالبان پر حملوں کے نام پر عام شہری آبادی کو نشانہ بنانے پر افغان طالبان کے امیر شیخ ملا ہبت اللہ خندزادہ نے بھی اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور امریکا کی جانب سے دوحہ مذاکرات میں غیر سنجیدگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے قول وفعل سے افغانستان میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے بارے میں شکوک پیدا کر رہا ہے۔ امریکی حکام کی طرف سے متضاد بیانات اور سویلین آبادی پر اندھادھند بمباری سے نیت پر شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔ملا ہیبت اللہ کا کہنا تھا کہ امریکا کیساتھ مذاکرات میں ہم پوری نیک نیتی سے مذاکرات کی طرف گامزن ہیں دوسرا فریق اپنے اقدامات اور بیانات سے بے یقینی پیدا کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم 18 سال سے جاری جنگ کو سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں، دو طرفہ اعتماد اور بھروسہ کے ساتھ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں، منفی چیزوں کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیے۔دونوں فریقین کا دوحہ مذاکرات کے درمیان سخت بیانات کی وجہ سے آٹھواں دور بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پزیر ہوا۔ گو کہ اس حوالے سے فریقین نے کسی ڈیڈ لاک کی بات نہیں کی ہے بلکہ آٹھویں دور کو امید افزا قرار دیتے ہوئے مسئلے کے حل کی جانب بڑھنا قرار دیا ہے۔
دوحہ میں افغان امن حل کے لئے مذاکراتی دور کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کی جانب سے اپنے سیاسی اثر رسوخ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ افغان طالبان ماضی میں پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر کافی تکیہ کئے ہوئے تھے۔ لیکن موجودہ حالات میں افغان طالبان نے کئی اہم مسلم اکثریتی ممالک سے سیاسی رابطے کئے ہیں جس میں انہوں نے اپنا موقف پیش کیا۔ ذرایع کے مطابق افغان طالبان کے اس سیاسی عمل کو بڑی باریکی سے دیکھا جارہا ہے اور ایسے آئندہ کے افغانستان میں دور اقتدار کے لئے سیاسی رائے عامہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش قرار دیا جارہا ہے۔افغان طالبان، ایران، روس، جرمنی،قطر، انڈونیشیا، ملایشیا اور یورپی یونین کو اپنا سیاسی موقف پیش کرکے اتفاق رائے حاصل کرچکے ہیں۔ افغان طالبان سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر اخوند کی قیادت میں 8 رکنی وفد نے 27 جولائی 2019ء کو انڈونیشیا کے نائب صدر یوسف کالا، وزیر خارجہ ریٹنو لیستاری اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی۔ طالبان وفد میں قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر اخوند، مولوی عبدالسلام حنفی، مولوی سیدعلی، ملا خیراللہ خیرخواہ، مولوی امیرخان متقی، ملا نوراللہ نوری، ملا عبدالحق وثیق اور سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین شامل تھے۔ اس کے بعد مجلس العلماء انڈونیشیا کے قائد پروفیسر سید عاقل سراج اور دیگر علما سے مرکزی دفتر میں ملاقات کی گئی۔ نیز افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی ایلچی رولنڈ کوبیا نے ایک وفد کے ہمراہ جناب ملا عبدالغنی برادر اخوند سے مملکت قطر کے صدر مقام دوحا شہر میں ملاقات کی۔ جناب ملا برادر اخوند نے یورپی یونین کے خصوصی ایلچی کے ساتھ ملاقات کے دوران افغانستان کی موجودہ صورت حال، امریکا سے مذاکرات، افغانستان میں شہری نقصانات کی روک تھام اور انسانی امداد کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ یورپی یونین کے خصوصی ایلچی نے افغانستان کے حوالے سے یورپی یونین کی پالیسی کی وضاحت کی اورمذکورہ تنظیم کی نمائندگی سے افغانستان میں امن و امان کے شعبے میں مثبت کردار ادا کرنے کی تسلی دی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی طالبان کے سیاسی دفتر سے رابطے میں رہیں گے۔
دوسری جانب افغان طالبان کی اہم سیاسی پیش رفت ازبکستان کا دورہ رہا۔ازبکستان کے سرکاری دورے پر گئے ہوئے افغان طالبان کے نائب ملابرادراخوند کی قیادت میں وفد نے عید کی نمازدارالحکومت تاشقند جامع مسجد میں ادا کی،ان کے ہمراہ ازبک صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان عصمت ارگاشف اور دیگر اعلی حکام بھی تھے۔نماز کے بعد عام شہریوں سے بھی ملے۔ اس سے قبل ازبکستان کے وزیرخارجہ عبدالعزیز کاملوف اور افغانستان کے لیے ازبکستان کے خصوصی ایلچی عصمت اللہ نے ایک وفد کے ہمراہ مملکت قطر کے دارالحکومت دوحا میں ملا عبدالغنی برادر سے ان کے قیام گاہ میں ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں ازبکستان کے وزیرخارجہ نے ملا برادر اخند سے ملنے پر انہیں اپنے ملک کے صدر کے احترامات پیش کیے۔ ازبکستان کے وزیرخارجہ نے کہاکہ ہم افغانستان میں امن و امان کے استحکام کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادہ ہیں۔
اسی طرح کوشش کر رہے ہیں کہ افغان عوام کی بھلائی کی خاطر وہاں معاشی سیکٹر میں کام کریں۔ علاوہ ازیں ہم افغانستان کے امور میں کسی قسم کی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جس پر ملا برادر اخوند ملاقات کے لیے آنے والے ازبک وزیرخارجہ اور وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ملا برادر اخوند نے کہا کہ طالبان مملکت ازبکستان کے ان تمام اقدامات کو سراہتے اور شکریہ ادا کرتے ہیں، جو افغانستان کے امن اور معاشی ترقی میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح جرمنی کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان مارکس پوتزیل نے دو مرتبہ اعلی سفارتی وفد کے ہمراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی۔ ملاقات مملکت قطر کے دارالحکومت دوحا میں یکم مئی اور 18 مئی کو ہوئی۔ ملاقات میں افغان تنازع کے پرامن حل، امریکا کے ساتھ جاری مذاکرات اور شہری نقصانات کے روک تھام کے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ جانبین نے اصرار کیا کہ ملک میں امن کا قیام افغانستان،خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔ افغان تنازع کے حل کے لیے موجودہ مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح جرمنی کے خصوصی ایلچی نے صُلح کی مد میں اپنے ملک کے تعاون اور مثبت کردار کی یقین دہانی کرائی۔ذرائع کے مطابق عالمی ریڈکراس کے نائب جنرل سیکریٹری ‘جیل کاربونیر’ اوران کے ہمراہ آنے والے وفد نے ملا عبدالغنی بردار اور دیگر اراکین سے ملاقات کی۔ ملاقات مملکت قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوئی۔ افغانستان میں انسانی امداد کے شعبے میں ریڈکراس کی سرگرمیوں سے متعلق جانبین کے درمیان اظہار خیال ہوا۔ جانبین نے باور کیا کہ انسانی امداد کے شعبے میں افغانستان کو بہت تعاون کی ضرورت ہے،لہذا اسے توجہ دینی چاہیے۔
خطے میں افغانستان میں امن کے قیام کے لئے سنجیدہ کوششوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم امن دشمن عناصر کی جانب سے دوحہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے پروپیگنڈوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کی ہندو انتہا پسند حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنے اور نسل کش اقدامات کے خلاف مسلم امہ میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور افغانستان امن پراسس کو ایک تناظر میں لیا جانے لگا۔ جس پر افغان طالبان نے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے ایک باقاعدہ بیان جاری کیا۔کشمیر میں جاری صورت حال بارے میں افغان طالبان کے مرکزی ترجمان کا بیان آیا کہ ”ہم جنگ وجدل سے تلخ تجربات رکھتے ہوئے علاقے میں آرام اور مسائل کو معقول طریقے سے حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہم ملوث ممالک، اسلامی کانفرنس، اسلامی ممالک، اقوام متحدہ اور دیگر باصلاحیت فریق کو بتلاتے ہیں کہ خطے میں بدامنی کے روک تھام کے لیے اپنا بااثر کردار ادا کریں، اپنے اثررسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فریقین کو ترغیب دیں،جس سے فتنے پھیلنے کاسدباب ہوجائے اور موجودہ مسائل کو ٹھنڈے دل اور حوصلے سے حل کریں۔اس ساتھ چند فریق کی جانب سے مسئلہ کشمیر کوافغانستان کے مسائل سے جوڑنے سے صورتحال میں بہتری لانے میں کوئی مدد نہیں کرسکتا،کیونکہ افغان مسئلہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افغانستان کو دیگر ممالک کے مقابلے کا میدان نہیں بننا چاہیے۔“
مقبوضہ کشمیر بھی اس وقت عالمی مسائل میں سر فہرست ہے۔ افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں جارحیت کے خلاف یکساں نظریئے کے طے مزاحمت کی جا رہی ہے کہ مادر وطن پر غیر ملکی جبری تسلط ناقابل برداشت ہے۔ تاہم دونوں تنازعات کا ایک دوسرے سے انسانی اور مذہبی بنیادوں پر تعلق تو بن سکتا ہے لیکن ایشوز میں نمایاں فرق ہے۔افغان طالبان، افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے لئے مزاحمت و سیاسی مذاکرات کررہے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے مقابل پاکستان فریق ہے، جو کشمیر کی اخلاقی حمایت کررہا ہے تو اس کے ساتھ اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے ہی دی جانے والی درخواستوں کے مطابق استصواب رائے کا حق کشمیریوں کو نہ دیئے جانے پر سفارتی جدوجہد کررہا ہے۔اس مرحلے پر پاکستان امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کررہا ہے۔ لہذا بھارت کی جانب سے پاکستان کو مزید الجھنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس سے افغان امن حل میں تاخیر پیدا ہونے کے زیادہ امکانات موجود ہیں تاہم دوحہ امن پراسس کے تکینکی عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال واضح ہونے کے بعد پاکستان اپنی توجہ مشرقی سرحدوں پر مرکوز کرسکے۔ درپردہ مقاصد یہی معلوم ہورہے ہیں کہ امن دشمن خطے میں امن کے تمام عمل کو سبوتاژ کرنے کے پروپیگنڈو ں سمیت منفی عوامل کو آزما رہا ہے۔ جیسے تمام فریقین کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔خطے میں امن کے لئے افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں بیرونی جارحیت کے خاتمے کے لئے بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کرانے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنا ہوگا۔