امریکا اور افغان طالبان کے ساتویں دور کے دوران اہم ترین پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب غیر سرکاری سطح پر ذاتی حیثیت میں کابل انتظامیہ کے اہم اراکین سمیت بااثر افغان خواتین سے افغان طالبان کے سیاسی دفتر نے مذاکرات کی حامی بھرلی اور ساتواں دوحہ قطر مذاکراتی دور کو دو دن کے لئے موخر کرکے بین الاافغانی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 53رکنی افغان وفد نے طالبان کے17رکنی وفد سے دو روزہ مذاکرات کئے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے مذاکرات میں بڑی اہم پیش قدمی کا عندیہ دیا ،جرمنی و قطر کی کوششوں سے ہونے والی اس بین الافغانی کانفرنس سے افغانستان میں غیر ملکی افواج کی یکم ستمبر تک انخلا کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ زلمے خلیل زاد چین کے دورے کے بعد پاکستان میں افغان سیاسی رہنمائوں کے بھوربن فارمیٹ اور دوحہ میں جرمنی فارمیٹ کے تحت ہونے والی پیش رفت کے بعد افغان طالبان کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد چار نکاتی معاملات پر حتمی منظوری حاصل کریں گے اور ڈیڈ لائن مکمل ہونے تک تمام فریقین کے لئے قابل قبول معاہدہ طے پا نے کی امید کی جاسکتی ہے۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دوحہ بین الافغانی امن کانفرنس کی قرارداد میں کہا گیا کہ” دوحہ میں شہر میں 07 اور 08جولائی کو امن کی خاطر بین الافغانی کانفرنس کے شرکاء افغانستان میں صلح کے لیے جرمنی اور مملکت قطر کی کوششوں کی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بین الافغانی اجلاس کی میزبانی اور سہولت فراہم کرنے کی وجہ سے دونوں ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔اسی طرح کانفرنس کے شرکاء اقوام متحدہ،خطے کے ممالک اور خاص کر امریکا سے مذاکرات اور بین الافغانی اجلاس کے لیے سہولیات فراہم کرنے والے ممالک کے مشکور ہیں،جنہوں نے افغان تنازع کے حل کی خاطر امکانات مہیا کیے اور ہمیں امید ہے کہ سب فریق مستقبل میں ایسی تعاون کو اس طرح انجام دینگے،جو ہمارے ملک اور ملت کی بھلائی کے لیے ایک حقیقی صلح تک پہنچنے کا سبب بن جائے۔یہ کہ طویل بحران کے بعد افغانستان میں پائیدارامن کے آمد کے لیے حالات سازگار ہوچکے ہیں، تو اسی ہدف تک پہنچنے کے لیے ہم دوحہ بین الافغانی کانفرنس کے شرکاء درج ذیل امور پر متفق ہوئے۔کانفرنس کے شرکاء کی نظر سے گفتگو اور افہام وتفہیم کے ذریعے کانفرنس کے شرکاء ملک کے آج اور کل کے متعلق مشترکہ درک تک پہنچ سکے اس راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کریں۔اسی وجہ سے ہم بالاتفاق گفتگو جاری کرنے کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں”۔
جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کئی نکات کا ذکر کیا گیا ہے تاہم ان نکات پر اتفاق رائے میں یقینی طور پر اس امر کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے کہ افغان طالبان کے وفد نے جہاں53رکنی سے دو روز تک سیر حاصل مذاکرات کئے تو ان میں کابل انتظامیہ کے تین اراکین کے علاوہ سرکاری حکام سیاسی و سماجی طبقے سے وابستہ اہم مرد حضرات کے علاوہ با اثر خواتین بھی شامل تھیں۔ ان خواتین میںڈاکٹرحبیبہ سرابی( ڈپٹی چیئرپرسن افغان ہائی پیس کونسل و ایڈوائزر افغان صدر و چیف ایگزیکٹووسابق گورنر بامیان) جمیلہ افغان (خواتین کے حقوق کے لئے معروف سماجی کارکن) ، فوزیہ کوفی (سابق رکن افغان پارلیمنٹ و انسانی حقوق کی چیئرپرسن جوواحد خاتون تھی جو ماسکو کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں تھی) ، ڈاکٹر انار کلی کور ھنریار (سابق رکن آزاد انسانی حقوق کمیشن و ممبر پارلیمنٹ و سکھ کیمونٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون)، ، لیلی جعفری (خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم افغان و افغان ہائی پیس کونسل کی رکن)،زینب موحد،ر افغان ویمن نیٹ ورک کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میری اکرامی قابل ذکر ہیں جو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی بابت اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔دوحہ بین الافغانی کانفرنس میں شریک خاتون مندوب اور افغان ویمن نیٹ ورک کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میری اکرامی نے کہا کہ ‘یہ صرف معاہدہ نہیں ہے، یہ بات چیت شروع کرنے کی بنیاد ہے۔’میری اکرامی نے کہا کہ ‘اچھی بات یہ ہے کہ اس پر دونوں فریق رضامند ہیں۔’ ڈاکٹر حبیبہ سرابی نے مشترکہ اعلامیہ کا دری زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اپنے ملک کے مستقبل کے لئے ضروری مسائل پر متفق ہیں۔کانفرنس امن کے ایجنڈے میں کامیابی ملی ۔قطر سے افغانستان واپسی پر تمام خواتین کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور کامیاب مذاکرات پر مبارکباد دی گئی۔
جب سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ابھی تک کابل انتظامیہ کوساتواں دور میں شامل نہیں کیا گیا ، جس کے بعد کابل انتظامیہ سے وابستہ کئی گروہ بلخصوص خواتین، اقلیتوں کے حقوق و اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے افغان طالبان سے مذاکرات کی ضرورت کو ابھارا جاتا رہا ہے ۔ ماضی میں افغان طالبان کے دور میں عالمی میڈیا میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بڑی شدت کے ساتھ افغان طالبان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ واضح رہے کہ افغانستان میں جب افغان طالبان کا اقتدار رہا تو خواتین کے حوالے سے پشتون روایات میں ثقافتی عنصر بھی پایا جاتا تھا جسے لبرل و سیکولر طبقہ جبر و ظلم سے تعبیر کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر طالبات کے اسکولوں میں تعلیم کے حوالے سے بھی افغان طالبان پر سخت تنقید کی گئی کہ افغان طالبان بچیوں کے اسکولوں میں تعلیم کے شدید مخالف ہیں ۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے افغان طالبان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ دین اسلام میں خواتین کو جتنی آزادی اور حقوق حاصل ہیں ، وہ ان کا احترام کرتے ہیں اور طالبات کی تعلیم کے کبھی مخالف نہیں رہے۔ بلکہ اسکولوں پر حملوں کی شدید مخالفت بھی کرتے رہے ہیں لیکن افغان طالبان کے اس موقف کو نہیں مانا جاتا بلکہ جدت پسندی ، سیکولر ازم اور لبرل سوچ کو خواتین کے حقوق کا ضامن سمجھا جاتا رہا ہے۔ کئی یسے واقعات ثابت ہوچکے ہیں کہ افغان طالبان مخالف گروپس نے اسکولوں کو نشانہ بنایا، درسی کتابوں میں خرد برد کی ، اسکولوں کو جلایا ، پانی کے ذخیرے میں زہر ملایا ۔ اسکولوں کو چیک پوسٹوں میں تبدیل کیا ۔ جبکہ افغان طالبان نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ افغان طالبا ن بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے مخالف ہیں۔
خیال یہی کیا جارہا تھا کہ افغان طالبان ماضی میں ہونے والے کچھ سخت واقعات میں خواتین کو مذہبی سزائوں کے حوالے سے سخت گیر موقف کی وجہ سے مذاکرات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کیونکہ افغان طالبان سعودی عرب ، ایران کی طرح شرعی سزائوں کی حد قائم کرتے تھے۔ بلکہ اب بھی کئی اسلامی ممالک میں خاص طور سعودی عرب میں شرعی سزائیں دی جاتی ہیں ، یہاں تک کہ ایران میں بھی سخت گیر سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر افغانستان جو اسلامی روایات و پختون ثقافت کا گہوارہ رہا ہے ۔ ان پر اسلامی شعائر کی قدغن ناقابل تفہیم ہے۔ جب ماسکو و قطر میں افغان امن تنازع کے حوالے سے افغان طالبان پر خواتین صحافیوں کو انٹرویو دینے پر تنقید کا نشانہ بنائے جانے لگا تو افغان طالبان نے واضح کیا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے عالمی برداری کو اپنا موقف دینا ناگزیر ہے اس لئے انہیں افغان طالبان کا موقف دیا جاتا ہے ۔ اس میں جنسی تفریق کا کوئی تعلق نہیں ۔ بین الاافغانی مذاکرات کے حوالے سے پہلی کوشش کابل انتظامیہ کی طویل فہرست کی وجہ سے موخر ہوئی تھی ، کیونکہ تاثر دیا جارہا تھا کہ افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان سرکاری سطح پر دوحہ مذاکرات شروع ہونے والے ہیں ، تاہم افغان طالبان نے طویل فہرست اور کابل انتظامیہ کی جانب سے دیئے جانے والے تاثر کو رد کردیا ۔
مشترکہ اعلامیہ میں بھی افغان طالبان کا واضح موقف سامنے تھا کہ ” اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم، کام، سیاسی، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کے شعبے میں حقوق نسواں کا اطمینان اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔”جرمنی فارمیٹ کے تحت بالاآخر افغان طالبان نے کابل انتظامیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے ذاتی حیثیت میں مذاکرات پر حامی بھرلی اور واضح بھی کردیا کہ افغان وفد کی حیثیت غیر سرکاری ہوگی۔تاہم یہ مذاکرات بھی انتہائی اہم ثابت ہوئے اور افغان طالبان نے گفت و شنید کے ذریعے افغان عوام و عالمی برداری میں پھیلائے جانے والی کئی غلط فہمیوں کو دور کیا۔ جس میں خواتین کی شمولیت اور انہیں مطئمن کرنا سب سے اہم و قابل ذکر پیش رفت ثابت ہوئی اور افغان وفد میں شامل با اثر خواتین نے اعتراف کیا کہ افغان طالبان ” بدل” چکے ہیں۔
شرکا نے افغانستان میں کسی بیرونی عناصر کی مداخلت و خواہش کے پیش نظر حکومت بنانے کی اطلاعات کو مسترد کردیا اور عزم کا اعادہ کیا کہ افغان طالبان پورے افغانستا ن پر کسی بھی مملکت کی خواہش کے مطابق اقتدار کے تاثر کو غلط قرار دیا ۔ امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات میں طالبان کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی ماسکو کانفرس میں میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک بیانیہ دے چکے ہیں کہ ‘ہم پورے ملک پر پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس سے افغانستان میں امن نہیں آئے گا’۔تاہم شیر محمد عباس ستنکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان طالبان جنگ بندی پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گے جب تک کہ تمام بیرونی افواج افغانستان سے نہیں چلی جاتیں۔مشترکہ اعلامیہ میں بھی لکھا گیا کہ” ملک میں پائیدار و باعزت امن کے ساتھ افغانستان تمام طبقات کا مشترکہ گھر ہے۔افغان عوام جس نے گذشتہ تاریخ اور خاص کر چالیس برسوں کے دوران اپنے دین، ملک، ثقافت اور خودمختاری کے لیے بیدریع قربانیاں دی ہیں۔ تمام عالمی، علاقائی اور ملکی فریق ہماری ملت کے عظیم اقدار کے احترام کو قائل ہوجائے۔اس لیے کہ آئندہ افغانستان ایک بار پھر جنگوں اور بحران کا شاہد نہ رہے۔ بین الافغانی افہام وتفہیم اور ملک کے مختلف طبقات کے درمیان آگاہی ایک مبرم ضرور ت ہے۔ عالمی، علاقائی اور تمام ملکی فریق کو اس سلسلے کی حمایت کی دعوت دیتی ہے اور اس کی تقویت سب کی بھلائی سمجھتی ہے”۔
دوحہ مذاکرات حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسودے کو امریکی صدر کی منظوری دیں گے۔ جس کے لئے صدر ٹرمپ کے معاون خصوصی زلمے خلیل زاد چین کے دورے کے بعد امریکا جائیں گے۔ قوی امید کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر بھی دوحہ مذاکرات میں طے پائے جانے والے نکات کی حتمی منظوری دے دیں گے۔ جس کے بعد یکم ستمبر سے قبل افغان سیاسی سطح پر مزید پیش رفت کے بعد انتقال اقتدار کے فارمولے پر حتمی فیصلے پر اپوزیشن رہنمائوں اور کابل انتظامیہ سے معاہدہ کو آخری شکل دی جاسکی گی ۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان سات دور ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک ان کا ایک بھی مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا ہے تاہم امریکا واپسی کے بعد ضمانت کا مرحلہ مکمل کرانے کے بعد امریکی افواج کے انخلا کا اعلان و نئے سیکورٹی معاہدہ منظر عام پر لائے جانے کی توقع ہے جس کے بعد ممکنہ طور پر امریکی کانگریس کا رویہ عالمی توجہ کا مرکز بنے گا ۔
دوحہ بین الافغانی مذاکرات میں فریقین کے درمیان ذیل نکات پر اتفا ق رائے پایا گیا ہے۔ الف۔ افغانستان میں اسلامی نظام پر اتفاق۔(ب)پائیدار امن کے آغاز کی شرائط کو عملی کرنے۔(ج) امن معاہدے پر عملدرآمد اور اس کی نگرانی۔(د) بنیادی تاسیسات، دفاعی اور دیگر ملی تنصیبات جو تمام افغانوں کی ملکیت ہے،صلح کے اتفاق کے بعد ان کی ضروری اصلاح، حفاظت اور تقویت کرنا۔(ھ) افغان مہاجرین اور جنگ کی وجہ سے ملک میں گھربارچھوڑنے والے خاندانوں کو اپنے اپنے علاقوں کی طرف دوبارہ روانگی۔(و) امدادی ممالک سے امن کے معاہدے کے بعد امداد نئی تعاون اور تعلقات کی شرائط پر۔(ز) افغانستان کے حوالے سے عالمی کانفرنس میں عالمی ضمانتوں کیساتھ افغان صلح کے اتفاق پر تائید۔(ح) عالمی کانفرنس میں خطے، ہمسائیہ اور دیگر ممالک کی جانب سے افغانستان میں عدم مداخلت کے وعدے اور اتفاق پر اصرار کرتا ہے۔(ہشتم) ہم امن کے حوالے سے تمام کوششوں اور ان میں سے05 اور 06 فروری کو ماسکو میں منعقد ہونیوالی کانفرنس کی قراداد کی تائید کرتے ہیں اوریک زبان ہوکر اسلامی کانفرنس، اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل، یورپی یونین اور تمام ہمسائیہ ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں، کہ امن کے حوالے سے دوحہ بین الافغانی کانفرنس کے فیصلے کو تائید اور اس کی حمایت کریں۔
کانفرنس میں ڈاکٹر عمر زاخیلوال ، احمد ناصر ، پرویز شامل، عبدالحق عمرائی،محمد ذکی دریابی، ایمامدین کمال،امین الدین مظفری،اوکتائی شران،حیدر دوست،صادق اللہ توحیدی، عبدالرحیم بادشاہ ،عنایت اللہ ،فرہاد اللہ فرہاد، سد حمدگیلانی،حیات اللہ جعفری، شہزدہ نادر نعیم،خالد نور، عبداللہ قلورق،شاہ گل رضائی،مرتضیٰ شریت،ساجد محمدی، محمد حکیم ، مرتضیٰ سریت،ارفعان شکیب،محمد عامر ستانگزئی،ڈاکٹر رانگین ۔ محی الدین مہدی ، تہمور شاران،محمد ارشاد مانوی،محمد صالح سلجوقی،سیف اللہ نورستانی،گیرت بہار،عبدالقدوس عبداللہ،ارشاد احمدی،جمال الدین بابر،عطا الرحمن سلیم ،عزیز الدین محمد،قربان علی، عبدالقہار حلیمی،محمد ہادی ، منصوری نادری،لطف اللہ نجف زادہ،عبدالسلام ضعیف،عبالہادی رافع،لیلیٰ جعفری،فوزیہ کافی،حبیبہ سرابی،جمیلیہ افغانی،میری اکرمی،انار کلی ہنریار، زنیب موحدافغان مندوبین شامل تھے۔
دوحہ بین الافغانی کانفرنس کے حوالے سے ایک تاثر آرہا ہے کہ افغان طالبان نے افغانستان میں مزاحمت کو ” پر تشدد” کاروائیوں کو ختم کرنے کو تسلیم کیا ہے تاہم اس کی وضاحت کرتے ہوئے افغان طالبان نے کہا کہ پرتشدد کاروائیوں کا تاثر دیئے جانا غلط ہے ۔ وہ عام شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان پر قابض اُن قوتوں کے خلاف مسلح مزاحمت کررہے ہیں جنہوں نے بزور طاقت افغانستان پر قبضے کی کوشش کی۔ انہوں نے یوناما رپورٹ کا بھی حوالہ دیا کہ70فیصد عام شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمے داری افغان سیکورٹی فورسز و غیر ملکی افواج کی جانب سے فضائی حملے وبے گناہ افغان عوام کو نشانہ بنانا رہا ہے ۔ مشترکہ اعلامیہ میں افغان وفد نے اس امر کو تسلیم کیا کہ ”جنگ میں ملوث فریق دھمکیوں، انتقامی خطرات اور جنگی ادبیات کے بجائے اپنے سرکاری بیانات میں نرم لہجہ استعمال کریں ”۔ افغان وفد نے دوحہ مذاکرات کی باقاعدہ توثیق کرکے ایک اہم رکائوٹ کے خاتمے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فریقین نے دوحہ مذاکرات کو افغانستا ن میں جنگ کے خاتمے کے لئے موثر و مثبت قدم قرار دیا ۔افغان طالبان ماضی میں دیئے گئے کئی بیانات میں عوامی مفاد عامہ کے منصوبوں اور عام شہری مقامات سمیت مسجد مدارس ، اسکولوں اور بازاروں پر بے گناہ شہریوں پر حملوں کو ناقابل قبول قرار دے چکا ہے اور افغان طالبان مزاحمت کاروں کو اس حوالے سے احکامات بھی دیئے گئے کہ وہ مفاد عامہ کے منصوبوں اور عام شہریوں کی حفاظت بھی کیا کریں ۔ افغان وفد کے ساتھ مذاکرات کے بعد کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ” افغان طالبان ملک کے تمام علاقوں میں عام المنفع تنصیبات و تاسیسات مثلا دینی اور مذہبی مراکز، صحت کے مراکز، بازار، پانی کے ذخائر اور کام کی جگہوں کی سیکورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔خاص کر تعلیمی تاسیسات مثلا اسکول، مدارس، یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کا احترام کیا جائے گا ۔” فریقین کے درمیان افغان طالبان کا دیرینہ مطالبہ بھی مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرکے اصولی موقف کو امریکا اور کابل انتظامیہ پر باور کرایا کہ حکومت کی جیلوں میں زیر حراست و اسیر عمررسیدہ، معذور اور بیماریوں قیدیوں کا غیرمشروط پر رہائی دی جائے۔
دوحہ بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود امن کے لئے مسدود رائیں کھل رہی ہیں ۔ اگر اس مرحلے پر افغانستان میں امن کے حل میں رکائوٹیں آئی تو جنگ میں شدت بڑھ جائے گی ۔ افغان طالبان اور امریکا تنازع کے حل کے ساتھ ساتھ افغانستان میں مستقبل کی حکومت کا سیاسی ڈھانچہ کس شکل میں نکلتا ہے اس کے خدوخال دھیرے دھیرے واضح ہوتے جا رہے ہیں ۔ افغان طالبان کی مزاحمت اور امریکا کا افغانستان سے انخلا ایک صبر الزما و طویل ترین جنگ کے بعد امن کا اہم مرحلہ ہے۔روس ، جرمنی، چین اور قطر نے جس طرح پاکستان کے ساتھ مل کر دیرینہ مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کے لئے کوششیں کیں ہیں اس کے مثبت نتائج سے خطے میں شامل تمام ممالک کو یکساں فایدہ ہوگا ۔افغان طالبان نے افغان وفد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قطر میں طے پائے جانے والے معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی سمیت دیگر نکات پر عمل درآمد کے لئے اب اپنا کردار ادا کریں ۔ خطے میں امن کے لئے اہم بنیادی معاملات حتمی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔ لہذا افغانستان میں جنگ کے سائے ختم کرنے کے لئے غیر ملکی افواج کو فوری انخلا کے لئے ٹائم فریم کا اعلان کردینا چاہیے تاکہ افغانستان میں جنگ بندی ہوسکے اور باقی تصفیہ طلب معاملات افغان عوام خود بیٹھ کر حل کر سکیں۔