سابق امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کے بعد ایک نیا امریکہ دنیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔جو بائیڈن نے بارک حسین اوبامہ کی کہنہ مشق ٹیم ایک دفعہ پھر میدان میں اتار دی ہے۔یہ ٹیم سنجیدہ ، بالغ نظر،فراخ دل اور دانشمند ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی محافظ بھی ہے۔دنیا تو وہی ہے جو کل تھی لیکن اس میں فیصلے صادر کرنے والے لوگ نئے ہیں جوکہ سیاسی تجربے اور مشاہدہ کی دولت سے سرفراز ہیں ۔ڈولند ٹرمپ ہر معاملے میں غیر سنجیدہ ا ور متلون مزاج تھے ۔وہ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت تھے لہذا ریاستی امور کی باریکیاں ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔وہ منہ پھٹ تھے اور جو کچھ منہ میں آتا تھا اس کا برملا اظہار کر دیتے تھے۔ان کے دورِ حکومت میں امریکہ کی جو سبکی ہوئی اسے بحال کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ڈولنڈ ٹرمپ کی نریندر مودی سے خصوصی دوستی تھی لہذا اس نے بھارتی قیادت کو تھپکی دے رکھی تھی کہ وہ جنوبی ایشیا میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے بے خوف و خطر کرے کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمہ وقت پاکستان پر چڑھ دوڑنے کیلئے بے تاب رہتا تھا۔ اسی دوستی کی بناء پر امریکہ نے بھارت کو جنوبی ایشیا کا چوہدری بنا دیاتھا ۔امریکہ نے بھارت کے ساتھ جس طرح دوستی بڑھائی اس سے پاکستان کو سفارتی سطح پر شدید نقصان پہنچا۔ نریندر مودی کے ساتھ امریکی دوستی کا نکتہ ماسکہ پاکستان دشمنی تھا۔یہی وجہ ہے کہ امریکی شہ پر نریندر مودی نے ٥ اگست ٢٠١٩ کوبھارتی آئین کی دفعہ ٣٧٠ کا خاتمہ کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا ۔امریکہ اور اس کے سارے حواری بھارت کی اس دیدہ دلیری پر لب مہر رہے ۔ کشمیر کو ہڑپ کر جاناایک غیر معمولی واقعہ ہے جس سے کسی بھی حال میں صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ کشمیر پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لہذا اس سے دست برداری ممکن نہیں ہے۔،۔
کوئی لیڈر اور کوئی حکومت کشمیر سے غداری کا تصور نہیں کر سکتی۔قائدِ اعظم نے جسے شہ رگ کہا تھا اور قائدِ عوام نے جس کیلئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔عمران خان مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششیں ثمر بار نہیں ہو رہیں ۔کمزور معیشت،قرضوں کی بھر مار،خالی خزانہ ، مالی مشکلات اور دوستوں کی طوطا چشمی ان کی منصوبہ بندی میں سدِ راہ بنی ہوئی ہے ۔ بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کو دبوچ رکھا ہے لیکن وہ پھر بھی بے دست و پا سب کچھ سہے جا رہا ہے کیونکہ اس کی سیاسی اور عسکری قوت جوابی وار کی متحمل نہیں ہے۔جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
پاکستان کو یقین ہے کہ جو بائیڈن انسانی حقوق کی پاسداری میں کشمیر پر بھارتی جارحیت کی مذمت کریں گے اور کشمیریوں کو اس کرفیو سے رہائی کا مژدہ سنائیں گے جسے بھارت نے ٥ اگست ٢٠١٩ سے نافذ کر رکھا ہے۔٥ فروری کو کشمیر ڈے پر حکومت اور اپوزیشن نے جس طرح قومی یکجہتی کو تار تار کیا وہ قابلِ مذمت ہے ۔ہم ایک قوم نظرآنے کی بجائے مختلف گروہ نظر آئے جو باعثِ صد افسوس ہے۔ وزیرِ اعظم کو ٥ فروری کو بھی این آر او یاد رہا ۔ان کے پاس اپوزیشن کو کوسنے کے علاوہ شائدکچھ بھی نہیں ہے۔ان کا یہ بیان بھی قابلِ مذمت ہے کہ کشمیر آزاد اور علیحدہ حیثیت برقرار رکھنا چاہے تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔پاکستانی عوام ایسی سوچ کو قبول نہیں کر سکتے ۔یاد رکھنا چائیے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور شہ رگ کو جسم سے علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا ۔کشمیر پاکستان ہے اور پاکستان کشمیر ہے۔یہ دونوں لازم وملزوم ہیںاور اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لہذا کشمیر کی آزادی کا نعرہ سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ،۔
جو بائیڈن افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کو کچھ دیر کیلئے معطل کر رہے ہیں کیونکہ افغانستان کے امن سے دنیا کا امن جڑا ہوا ہے ۔ امریکی فوجی انخلاء سے اس خطہ میں کشت و خون کا اندیشہ ہے ۔خانہ جنگی جو کئی عشروں سے افغانستان کا مقدر ہے اس میں مزید شدت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔امریکی فوجوں کے انخلاء سے اشرف غنی کی حکومت کا قائم رہنا ناممکن ہو گاجو مزید انتشار اور بدامنی کو ہوا دیگا ۔ طالبان کی حکمتِ عملی کے سامنے اشرف غنی کی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہورہی ہے۔روزمرہ کے خود کش حملے افغانستان کے امن کو تاراج کر رہے ہیں جس کا ڈائریکٹ اثر پاکستان کے امن پر منعکس ہو رہا ہے۔بلوچستان اور کے پی کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں ۔
بھارت اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر اپنی دھشت گرد انہ کاروائیوں میں تیزی لا رہا ہے۔پچھلے سال جو امن معاہدہ امریکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان طے پایا تھا وہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔طالبان فتح کے نشہ میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔وہ افغانستان پر اپنی حکومت کے خوا ب دیکھ رہے ہیں ۔ اگر امریکہ راستے سے ہٹ جائے تو کل ہی کابل طالبان کے زیرِ نگین ہوگا لیکن امریکہ ایسا نہیں چاہتا جس پر طالبان میں پھیلی بے چینی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔٢٠ سالوں سے امریکہ اور یورپ نے افغا نیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اس کی تلخی اب بھی طالبان کی صفوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ان کیلئے اب مزید انتظار کرنا ممکن نہیں ہے۔وہ جلد از جلد کٹھ پتلی دور کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن دنیا کی سپر پاور ان کی راہ میں مزاحم ہے ۔ بھارت بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائے ہوئے ہے اور وہ بھی طالبان سے اتنا ہی خوفزدہ ہے جتنا امریکہ اور اس کے حو اری ۔بھارت کوڈر ہے کہ افغان مسئلہ کے حل کے بعد طالبان کشمیر کا رخ کریں گے اور یوں کشمیرکی جنگِ آزادی نیا رخ اختیار کر لے گی۔،۔
پاکستان طالبان کی حقیقیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس کیلئے امریکی سوچ سے ٹکرانا ممکن نہیں ۔وہ سفارتی سطح پر طالبان کی کھلی حمائت سے گریزاں نظر آتا ہے لیکن اس کی ہمدردیاں واضح طور پر طالبان کے ساتھ ہیں۔طالبان کی سوچ سے اختلاف رکھنے کے باوجود دنیا ان کی استقامت ، صبر ،قر بانیوں جرات ،بہادری اورعزم ِ مصمم کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔انھوں نے جس طرح امریکہ اور ان کے حواریوں سے ٹکر لی ہے وہ انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ انھوں نے اپنے قائدین کی قربانی دی،اقتدار کی قربانی دی،حکومت سے دست بردار ہو نے کی قربانی دی لیکن اپنے اصولوں سے سرِ مو انحراف نہ کرنا کارِ ہر دیوانہ نیست ۔کوئی مجھے بتائے کہ کہیں ایساہو تا ہے؟ طالبان نے سالہا سال جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں ، سختیوں اور جبرکو جھیلا لیکن امریکہ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے جو بڑ ا حیران کن ہے۔ایسے افراد کی صداقت کو سلام نہ کرنا جرات و بہادری سے رو گر دانی کے مترادف ہے۔
طالبان کے نام پر تحریک طا لبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) نے جو سورش برپا کی اور جو قتلِ عام کیا اس کا طالبان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ٹی پی ٹی نے پاکستانی عوام کو جس طرح دھشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا وہ انتہائی سفاک بے رحم اور غیر انسانی عمل تھا جس کی مذمت کی جانی چائیے ۔جو بائیڈن باہمی مشاورت اور جمہوری انداز میں افغان مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ہیجان انگیزی اور بد تمیزی کی وہ روش جو ڈولنڈ ٹرمپ نے مستعمل کی تھی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔پاکستان اپنی مغربی سرحدوں پر امن کا خواہاں ہے کیونکہ مغربی سرحدوں پر امن اسے سینٹرل ایشیا تک رسائی کی نعمت سے سرفراز کر سکتا ہے لہذا پاکستان امریکہ کو قائل کر ے کہ افغان امن پوری انسانیت کی سالمیت کا ضا من ہے ۔،۔