لاہور (جیوڈیسک) مزید کئی دہائیوں تک ڈالر ایک خوفناک ہتھیار کے طور پر آگے بڑھتا رہے گا اور یہ پاکستان کی مارکیٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگا۔
دنیا کے پونے آٹھ ارب افراد کی نظریں گولہ بارود پر ہیں، کسی کے نزدیک ایٹمی ہتھیار دنیا کی تباہی کا سبب بنیں گے، کسی کے نزدیک دنیا خوفناک میزائلوں سے اور کسی کے نزدیک آتش فشاں چٹانوں کے باہمی تصادم سے نیست و نابود ہوگی۔
مگر کچھ کے نزدیک دنیا کی تباہی امریکی ڈالر سے منسلک ہے۔ کچھ ماہرین ڈالر کو دنیا کا سب سے زیادہ ”تباہ کن“ ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی گوشہ اس سے محفوظ نہیں، یہ کسی بھی ملک کو کسی بھی طرح نشانہ بنا سکتا ہے۔
”ڈالر بم “سے کوئی بچاﺅ ممکن ہے نہ فرار، یہ کسی روح (یا بدروح )کی مانند آپ کی معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں اور کوئی توڑ نہیں۔ عالمی بینکاروں کے مطابق دنیا کو خطرہ فیکٹریوں میں بننے والے گولہ بارود سے نہیں، بلکہ منٹ میں چھپنے والے امریکی ڈالروں سے ہے۔
امریکا نے دھیرے دھیرے ڈالر کو ایسی شکل دے دی جس سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ سرمائے کی دوڑ میں یورو، برطانوی پاﺅنڈ، جرمن مارک اور چینی یان بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ خود کو بڑا ملک سمجھنے والے بھارت کے روپے کی سرمایہ منڈیوں میں کوئی ساکھ ہی نہیں، یہ کاغذ کے ٹکڑوں کی مانند ہے۔
80ء برس پرانی کہانی ہے، امریکہ اس وقت خود کو خطرے میں محسوس کیا کرتا تھا، ویسے خود کو غیر محفوظ سمجھنا اس کی پرانی عادت ہے، اڑتی چڑیا سے بھی ڈرنے والا امریکہ اپنے اردگرد ایک کے بعد ایک حصار قائم کرتا رہا۔ دنیا بھر میں اقتصادی پابندیوں اور جیو پولیٹیکل پوزیشن کا انتہائی طاقت ور اور وسیع جال بچھا دیا۔
امریکی معیشت ہمہ گیر ہے مگر جنگی ہتھیار امریکہ کی پہچان ہیں، ڈرون جیسے جاسوس اور بمبار طیاروں سے لے کر ”بموں کی ماں“ بھی امریکہ ہی کی شناخت ہے۔
یہ تلخ حقائق معاشی تاریخ کے اوراق پر بکھرے ہیں۔ جا بجا، کوئی بھی ورق الٹیں، ایک نہ ایک کہانی مل ہی جائے گی۔ 2014ء میں امریکہ نے ”ڈالر بم“ کے سہارے جنوبی افریقہ کے ادارے BNP Paribas پر 9 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کر کے اس ملک کی معاشی بربادی کا سامان کر دیا تھا۔
امریکہ اپنے قوانین کے تحت اس ملک کو جرمانہ کر سکتا ہے جس ملک نے امریکی پابندیوں کے باوجود اس ملک کے ساتھ امریکی کرنسی میں تجارت کی ہو۔ BNP Paribas نے ایران، کیوبا اور سوڈان کے ساتھ امریکی ڈالرز میں بزنس کیا اور یہی ان کا جرم ٹھہرا۔
جرمنی کی ایک ہولڈنگ کمپنی اور دوسرے کئی کاروباری اداروں کو بھی ” ڈالر بم“ کا نشانہ بنا گیا، ہانک کانگ اور چین کی کمپنیاں بھی ”ڈالر بم“ کا نشانہ بنیں۔
1944ء میں نیو ہیمشائر کے علاقے برییٹنز ووڈز میں واقع ”دی ماﺅنٹ واشنگٹن ہوٹل“ کو 44 ممالک کے 730وفود کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
یہاں منعقد ہونے والی ”اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے مالی و مالیاتی امور“ میں طے پانے والے معاہدے کو”بریٹنز وڈ Bretton Woodsایگری منٹ“ کہا جاتا ہے۔
اجلاس کے فیصلے کمزور ممالک کے لئے کسی بم دھماکے سے کم نہ تھے بلکہ خود کش دھماکے کی مانند تھے۔ اس اجلاس کے فیصلوں کی مدد سے امریکہ کو کمزور ممالک کے نظریے، سوچ اور پالیسی پر بھی مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور انٹرنیشنل بینک برائے تعمیر و ترقی (آئی بی آر ڈی) اسی اجلاس کی ”پیداوار“ ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا معاشی نظام کیسا ہو گا؟ اس بارے میں 44 ممالک فیصلے چند ان دوعالمی اداروں کے قیام کے بعد الگ ہو گئے۔ انہوں تین بنیادی نکات پر بھی اتفاق رائے کیا
1: آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد کرنسیوںکی شرح تبادلہ اور بہاﺅمیںاستحکام پیدا کرنا ہوگا۔
2: جنگ سے تباہ شدہ ممالک میں تیز تر تعمیراتی سرگرمیوں کو یقینی بنانا، قرضوں کی فراہمی کے لئے آئی بی آرڈی کا قیام۔
3: عالمی معاشی تعاون کے لئے دیگر تجاویز کی تیاری۔
ان بنیادی فیصلوں کے بعد دیگر معاملات امریکہ اور برطانیہ پر چھوڑ دئیے گئے۔ان کی مرضی تھی، وہ دنیا کے بارے میں کیا نظام بناتے۔ امریکی وزیر خزانہ ہیری ڈیوڈ وائٹ(Harry Dexter White)اور برطانوی وزیر خزانہ جان مینارڈ کینس (John Maynard Keynes) نے نیا نظام تشکیل دیا۔ اسی معاہدے کے تحت ڈالر اور سونے کا بڑھتا ہوا تعلق ٹوٹ گیا تھا۔
سونے کی جگہ ڈالر نے لے لی۔ تما م ممالک نے ڈالر میں تجارت کا فیصلہ کیا۔ حتیٰ کہ بارٹر سسٹم بھی اس معاہدے کے بعد دم توڑ گیا۔ اناج کے بدلے اناج ، مشینری کے بدلے مشینری اور خام مال کے بدلے خا م مال کی ضرورت آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ۔ نئے تقاضوں کے مطابق عالمی تجارت کا محور و مرکز اور بموں کی ماں ڈالر بن گیا۔
1965ء میں فرانسیسی وزیر خزانہ ویلوے جسکارڈ ڈی استان نے ڈالر میں تجارت کو اہمیت دی۔ وہ جانتے تھے کہ ڈالر امریکی تجارت اور بجٹ کے خسارے پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،کیونکہ ڈالر کا بڑا حصہ امریکہ سے باہر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سو ڈالر کے 90فیصد نوٹ امریکہ میں موجود نہیں ۔ہم جیسے لوگ اپنی جیبوں میں ڈالر ٹھونسے پھر تے ہیں، یہ ہمارا فخر ہے ،اس کے برعکس امریکہ میں سو ڈالر کا نوٹ بے چینی اور شتشویش باعث ہے ۔کرنسی میں لین دین کرنے والے کو شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
ڈالر کی شرح تبادلہ میں تبدیلی دوسرے ممالک کے لیے الجھن کا باعث بنی۔ یہ ایک ایسی مصیبت میں تبدیل ہوگئی جس سے چھٹکارہ پانا ممکن نہیں۔ امریکی مالیاتی پالیسیوں نے ڈالر کے ذریعے سے آہستہ آہستہ دوسرے ممالک کے معاشی ڈھانچوں، ان کے بینکاری نظام اور مالیاتی سسٹم میں اثر و نفوذ کر لیا۔
دوسرے ممالک کی معیشتوں کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے لگا۔ ڈالر کی شرح میں تبدیلی کسی بھی ملک کی معیشت کو بحران سے دو چار کر سکتی ہیں نیٹو کے امریکی جنرل نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سات اسلامی ممالک امریکہ کے نشانے پر ہیں یہ وہ ممالک تھے جو ڈالر کی قدرو قیمت سے آگاہ نہ تھے یا امریکہ کے تخلیق کردہ بینکاری نظام سے بالا تر رہ کر عالمی تجارت کو فروغ دے رہے تھے۔انہیں ڈالر کے متبادل کی تلاش تھی۔ لیبیا، شام جیسے ممالک ان میں پیش پیش تھے۔ امریکہ نے ان ساتوں ممالک کو نشان عبرت بنا دیا۔
ڈالر کی طاقت امریکی کے سینکشنز پروگرام (Sanctions Progarm)سے منسلک ہے۔ کئی امریکی قوانین ڈالر کے استعمال کی وجہ سے امریکہ کو دوسرے ممالک کے خلاف کارروائی کا اختیار دیتے ہیں۔ انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ ہو (International Emergency Economic Powers Act)یا دی کریڈٹ ود اینمی ایکٹ (The Credit with Enemy Act)۔ دونوں قوانین کے ذریعے امریکہ ڈالر کے ناجائز استعمال کا بہانہ بنا کر کسی بھی ملک پر لا محدود جرمانہ عائد کر سکتا ہے۔ دنیا کی کوئی عدالت اس جرمانے یا امریکی اقدام کو زیر بحث نہیں لا سکتی۔
دی پیٹریاٹ ایکٹ (The Patriot Act)امریکی ڈالر کے بہاﺅ کو ایک ہتھیار کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ ان دنوں امریکہ میں اگلے انتخابات کو غیر ملکی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے ریڈ لائن ایکٹس (Red Lines Act)کی تیاری جاری ہے۔ کریمینل ایگریشن ایکٹ (Criminal Aggression Act)اس کی عسکری طاقت میں اضافے کا غماز ہوگا۔ ان تمام قواعد و ضوابط کو اگر عالمی مالیاتی بینکاری نظام کے ساتھ منسلک کر کے سوچا جائے تو امریکہ کو عالمی معیشت پر لا محدود اور غیر متناہی اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں اور بلا شرکت غیرے اور کسی بھی باز پرس کے بغیر۔ ورلڈ وائیڈ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن گلوبل میسیجنگ سسٹم (World wide International Tele Comminication Global Messaging System)بھی امریکہ ہی کی تخلیق ہے۔
ملک بڑا ہو یا چھوٹا۔ مالیاتی ٹرانسفر اسی نظام کے ذریعے کرنے کا پابند ہے ،اس نظام باہر ممالک امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ امریکہ یہ نہیں دیکھتا کہ پابندیاں کس پر لگائی جارہی ہیں ۔کوئی ادارہ ہو یا انفرادی شخص یا کوئی سرکاری کمپنی۔امریکی بینک سے نکلنے والا ایک ڈالر کے نوٹ پر امریکہ کسی بھی ملک کیخلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ امریکی ڈالر سے ادائیگیاں کرنے والے امریکی قواعد و ضوابط کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ یہی عالمی تجارتی نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
بعض ممالک نے اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی ۔ چین حال ہی میں کئی ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی میں تجارت کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ محدود پیمانے پر ہے۔ روس بھی عالمی منڈیوں میں امریکی ڈالر کو شکست دینے کے درپے ہے۔ روس کی 14فیصد تجارت امریکی بینکوں کے دائر ہ کار سے باہر ہے۔ امریکہ، ہانک کانگ، یا ماسکو کے بینکاری سسٹم کو اپنی تجارت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ چین نے الیکٹرانکس مصنوعات کی تجارت امریکی بینکوں سے باہر نکالنے کا تجربہ کیا مگر ناکام رہا۔ شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلق قائم کرنے پر چند چینی اداروں کو بھاری جرمانوں کاسامنا کرنا پڑا۔
ڈالر بم مختلف ممالک کو کئی سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا چکا۔ پاکستان تو پاکستان جرمنی، جاپان، فرانس اور کینیڈا کو بھی ڈالر سے پریشانی ہے۔سب ہی حل کی تلاش میں ہیں۔شرح تبادلہ میں اضافہ کے لیے دباﺅ الگ ہے۔ چین اور روس کے علاوہ یورپ میں بھی متبادل کرنسی سسٹم پر کام جاری ہے۔اس کی تنظیم نو اور ڈالر کی جگہ روبل یا یان کی راہمی کوئی آسان بات نہیں آناً فاناً ایسا کرنا ممکن نہیں۔
پاکستان چین کی کی طرف دیکھ رہا ہے مگر چین کی کرنسی یان ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ وہ ڈالر کی جگہ لے لے۔چین اور روس میں معاشی بے چینی اور اقوام عالم کے لیے ایک ناقابل قبول معاشی سسٹم ان ممالک کی کرنسیوں کو طاقتور بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے کئی سال قبل کہا تھا کہ امریکہ ڈالر کی مصنوعی شرح تبادلہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور اصل شرح تبادلہ نصف کے برابر ہے۔ پاکستان میں مشرف دور میں ڈالر دس سال تک 58روپے پر منجمد رہا۔ مشرف کے حکومت سے نکلتے ہی ڈالر کو جیسے پر لگ گئے۔ اس کی شرح تبادلہ 58روپے سے بڑھتے بڑھتے اب 135روپے پر ہے۔ پاکستانی معیشت اور عالمی تجارت باقابل بیان حد تک بڑے بحران میں مبتلا ہے۔
یوں بھی ڈالر کے ذخائر الگ مسئلہ ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر سے منسلک ہیں، ڈالر میں ہی لین دین ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک کو اپنی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر اضافی ڈالر کی ضرورت پڑتی ہے۔ تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔ امریکہ نے آئی ایم ایف کی 18فیصد ضرورت کو پورا کرکے اپنا محتاج بنا لیا۔
دوسرے عالمی مالیاتی ادارے بھی امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں ۔اسی لیے مزید کئی دہائیوں تک ڈالر ایک خوفناک ہتھیار کے طو رپر آگے بڑھتا رہے گا ،اور یہ پاکستان کی مارکیٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوگا۔