ڈالر سستا

Dollar

Dollar

ملک و قوم اور عوام کے لیے یہ صورت حال ایک المیہ سے کم نہیں کہ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر غیر ملکی ایجنڈے اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل درآمد کا ہی راستہ اختیار کیاہے۔ جس کے نتیجہ میں قومی آزادی و خودمختاری اور سلامتی و سالمیت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف سے انتہائی ذلت آمیز شرائط پر قرضہ لے کر عوام کی مشکلات میںبھی بے پناہ اضافہ کردیا گیاہے۔

موجودہ حکومت کی گزشتہ دس ماہ کی کارکردگی نے واضح کردیاہے کہ حکمرانوں نے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ان کے پاس ملک کو حالات کے گرداب سے نکالنے کے لیے نہ تو کوئی روڈ میپ ہے اور نہ ہی ان کے سامنے کوئی واضح ھدف اور منزل ہے۔ اگرچہ حالات کابگاڑ زندگی کے تمام شعبوں اور قومی سلامتی کے تمام دائروں تک پھیل چکاہے ۔پاکستان کی آزادی و خودمختاری کاتحفظ بنیادی طور پر مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بد قسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی اور قومی غیرت پر مبنی ٹھوس اور جرأت مندانہ پالیسی اپنانے کی بجائے امریکہ کی خوشنودی اور بھارت سے غیر مشروط دوستی کو اپنی تمام پالیسیوں کا مرکز و محور قرار دیاہے۔

وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر اور اس کے بعد اپنے مسلسل بیانات و اقدامات سے اس تاثر کو مزید گہرا کیاہے کہ وہ اصلاً بھارت سے دوستی کے لیے برسراقتدار آئے ہیں او ر وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل ، دریائی پانیوں ، سیاچن ،سرکریک اور بھارت کی طرف سے تخریب کاری کے معاملات و مسائل کو یکسر نظر انداز کرکے بھارت کو ہر طرح کی مراعات دینے ، اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے بے چین ہیں۔وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران معذرت خواہانہ طرز عمل کی وجہ سے اس دوران ڈرون حملوں میں اضافہ اور بالخصوص مذاکراتی عمل کو سبوتاژکرنے والے ڈرون حملوں نے واضح کردیاہے کہ امریکہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھتاہے۔ اور وہ ہمارے حکمران تو کجاپارلیمنٹ کی قراردادوں کو بھی کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معیشت کی بحالی کی بجائے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے،بالواسطہ ٹیکس بڑھانے اور نوٹ چھاپنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے۔

اس کے نتیجہ میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ اور روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے اس دوران آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر 6.5بلین ڈالر کا قرضہ اور 6ماہ میں 6کھرب 77ارب روپے کے نوٹ چھاپنے کے غیر دانشمندانہ اقدامات نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے معیشت میں بہتری نہیں آ سکتی ،جس دن عوام کو بنیادی ضروریات زندگی آٹا گھی چینی اور دالیں سستے داموں ملنے لگیں گی لوگ خود بخود مان جائیں گے کہ ملک ترقی کررہا ہے اور معیشت بہتر ہورہی ہے ،مہنگائی ،بے روز گاری، غربت اور بدامنی معاشی ابتری کی پیدا وار ہیں ،حکومت کوان بیماریوں پر قابو پانے میں کوئی دلچسپی نہیں ،جب تک سودی معیشت اور صیہونی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے چھٹکارا نہیں ملتا معاشی انقلاب نہیں آسکتا ،وزیر اعظم قومی معیشت کودرست پٹڑی پر ڈالنا چاہتے ہیں تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے جان چھڑائیں ،کرپشن کا خاتمہ کریں اور خود انحصاری کا رستہ اپنائیں ،ریونیو کی کمی اور اضافے ، ڈالر کے سستا یا مہنگا ہونے اور ملکی زرمبادلہ میں اربوں ڈالر کے اضافے سے عام آدمی کے مسائل میں کمی نہیں آتی ،حکمران لوگوں کو واقعی کچھ دینا چاہتے ہیں۔

Inflation

Inflation

تو مہنگائی میں کمی کریں اور بے روزگاری پر قابو پا کر لوگوں کو روز گار کی سہولتیں دیں تاکہ لاکھوں بے روز گارکوئی کام کاج کریں اور قومی معیشت کی گاڑی کا پہیہ روانی سے چل سکے ۔ حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو برادر اسلامی ممالک سے غیر سودی قرضے لیکر ملک میں انڈسٹری اورصنعت کو فروغ دے ، معاشی طو ر پر ملک اس وقت اپنے پائوں پر کھڑاہوگا جب ہمیں ادھار پکڑ کر ریونیو اورزرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ملکی معیشت کی گروتھ بڑھ جائے گی اور عام آدمی کو روز گار اور تعلیم وصحت کی بنیادی سہولیات دستیاب ہونگی ۔ معاشی ماہرین مانگے تانگے کے پیسوں سے بننے بگڑنے اور قرض کی بیساکھیوں پر کھڑی معیشت کی صورتحال کوبہتر نہیں بلکہ ابتر گردانتے ہیں ، سعودی عرب سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرضہ لینے کے باوجود مہنگائی میں ایک پیسے کی کمی نہیں ہوئی ،غریب آدمی کل بھی بھوک کے ہاتھوں تنگ تھا اور آج بھی اسے کھانے کو نہیں مل رہا ،غربت کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے،افراط زر اتنا بڑھ گیا ہے۔

سو روپے کا نوٹ دس کے برابر رہ گیاہے ۔ انہی دنوں حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں سوا دو روپے فی یونٹ اور سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیوں نے بالترتیب 24اور47فیصد اضافہ کرنے کی منظوری کیلئے اوگرا کو سمری ارسال کی ہے ، جس معیشت کی بنیاد ہی شرح سود میں کمی بیشی پر ہو اس میں بہتری کیسے آسکتی ،حکمران سودی معیشت کے خاتمے کیلئے تیار نہیں ۔ حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں کشکول توڑنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج انہوں نے چھوٹا کشکول پھینک کر بڑے سائز کا کشکول اٹھا لیا ہے ، حکمران عام آدمی کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا نہیں کرسکے بلکہ موجودہ دورحکومت میں لوگوں کی مشکلات پہلے سے دوچند ہوگئی ہیں ،بار بارآنے والے مہنگائی کے طوفانوں اور افراط زر نے عام آدمی کی قوت خرید کو شدید متاثر کیا ہے۔

، موجودہ حکومت نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ کیا جس سے تما م اشیائے سرف کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوچکا ہے ۔ اگرحکمران عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی لائیں اور عام آدمی کو روزگار کی سہولت دینے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کریں تاکہ لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لائی جاسکے ۔ ملکی معیشت کو امداد اور آئی ایم ایف سے قرض لے کر چلایاجارہاہے۔رواں سال 2013-14میں ملکی جی ڈی پی کا30فیصد قرض کی ادائیگی میں چلاجائے گا۔اندرون ملک6کھرب 72ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے ہیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ان میں سے4کھرب66ارب روپے نوٹ تبادلے اور2کھرب6ارب روپے کے خالص نئے نوٹ چھاپے گئے ہیں۔حکومت نے قلیل مدت میں 750ارب روپے سٹیٹ بنک سے قرض لیاہے۔

اس ساری صورتحال سے عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی سعودی عرب سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے باعث ہے۔روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کمی بلاشبہ خوش آئند ہے مگر اس کے اچھے اور دوررس اثرات عام لوگوں پر بھی دیکھے جانے چاہئیں۔عارضی بنیادوں پر بنائی جانے والی پالیسیاں ملک وقوم دونوں کے لئے نقصان کاباعث ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جن سے حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف میسرہو۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کے باجود پٹرولیم مصنوعات،ٹرانسپورٹ کے کرایوں اور اشیاء خوردونوش کے نرخوں میں کسی قسم کاکوئی فرق نہیں آیا۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔40فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Mohammad Shahid Mahmood

Mohammad Shahid Mahmood

تحریر:محمد شاہد محمود