برِصغیر کی تاریخ میں 23 مارچ 1940ء خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اِس دن دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے قیام کی قرار داد پیش کی گئی۔ماضی کے جھرونکوں سے جھانکتا ہوا یہ دن یاد دلاتا ہے اُن سحر انگیز نعروں کی جب ہندوستان کے ہر مسلمان کی زبان پر یہ نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الااللہ’۔ ہم آج بھی یہ دِن پورے تزک و احتشام سے منا کر ”قراردادِ پاکستان کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں لیکن 24 مارچ کو سب کچھ فراموش کرکے اپنی ذات میں ایسے گُم ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں اپنا ملک یاد رہتا ہے نہ قوم اور نہ ہی وہ مقصد جس کی خاطر یہ ملک حاصل کیا گیا۔
کیاہماری معاشی ، معاشرتی سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اور مذہبی زندگی کا کوئی ایک پہلوبھی ایسا ہے جسے ہم احساسِ تفاخر کے ساتھ دُنیا کے سامنے پیش کر سکیں ؟۔شاید بلکہ یقیناََ نہیں۔ وجہ صرف یہ کہ ہمیں اپنے وجود کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی ۔البتہ میلوں ٹھیلوں اور قومی دِن منانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔ ہم تو ٹھہرے گفتار کے غازی اور وہ بھی ایسے کہ جدھر دیکھو اُدھر افلاطون اور ارسطو ہی نظر آتے ہیں ۔اپنے آپ کو” عقلِ کُل ”سمجھنے کی بیماری ہمارے پڑھے لکھے طبقے ، خصوصاََ تجزیہ نگاروں میں بدرجۂ اتم موجود ہے ۔جِس کا جی چاہے وہ بابائے قوم کو سیکولر بنا دیتا ہے اور جس کے نَن میں آئے وہ اُنہیں ”کَٹر مُلّا” کے روپ میں پیش کر دیتا ہے ۔ہمیں حضرت قائدِ اعظم کے فرمودات بیان کرنے کا تو بہت شوق ہے لیکن یہ طے ہے کہ عمل کی ذمہ داری ہم نے دوسروں کو سونپ رکھی ہے ۔ہمارے ہاں یہ بھی رواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ ہم سیدھی سادھی بات میں بھی ٹیڑھ تلاش کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔
میں نے اپنے کالموں میں بار بار لکھا کہ موجودہ حکومت قومی مفادات کا سودا کرے گی نہ گھاٹے کا لیکن چونکہ بزرجمہروں نے ڈیڑھ ارب ڈالروں کا ناطہ ملکِ شام کے اندرونی خلفشار سے جوڑنے کی ٹھان رکھی تھی اِس لیے اُن کی ایک ہی ضد تھی کہ ”کوئی چکرہے” اور یہ چکر سوائے شام کے اور کوئی ہو نہیں سکتا کیونکہ سعودی عرب کا شام سے ”اِٹ کَھڑکا” چل رہا ہے ۔میرے کالم پر طنز و تعریض کی بوچھاڑ بھی ہوئی اور قلم فروشی کے طعنے بھی سُننے پڑے ۔لیکن میں بھی چونکہ تھوڑی ضدی واقع ہوئی ہوں اِس لیے میں بھی ڈَٹی رہی ۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارے اپوزیشن کے ”عظیم” سیاستدان اور ”عظیم ترین” تجزیہ نگار جو مو شگافیاں کر رہے ہیں ، اُن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
جب سعودی ولی عہد پاکستان تشریف لائے تو ہمارے تجزیہ نگاروں نے شور مچا دیا کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔اُس وقت تجزیوں کی تان اِس بات پہ توڑی جا رہی تھی کہ سعودی ولی عہد پرویز مشرف کو چھڑوانے آئے ہیں ۔ جب ڈیڑھ ارب ڈالر ملے تو کہا جانے لگا کہ یہ شام کے باغیوں کو ہتھیاروں کی سپلائی کے لیے ملا ہے اور باغیوں کی مدد کے لیے فوج بھیجی جا رہی ہے ۔برطانوی شہری الطاف حسین صاحب نے حسبِ سابق ”بڑھکیں ”لگاتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حکومت اگر فوج کو کسی دوسرے ملک جانے کا حکم دے تو وہ انکار کر دے ۔در اصل ہمارے اچھّے بھلے ”الطاف بھائی” کو سکاٹ لینڈ یارڈ والوں کی نِت نئی ”شرارتوں”نے بوکھلا کے رکھ دیا ہے ۔اپنی اِس بوکھلاہٹ کا اُنہیں احساس بھی ہے اور ادراک بھی ۔اسی لیے وہ جب بھی خطاب فرماتے ہیں توساتھ ہی احتیاطاََ کچھ ایسا بھی فرما دیتے ہیں کہ
بَک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے ، خُدا کرے کوئی
تَرس آتا ہے بیچاری ایم کیو ایم پر جو کافی عرصے سے سیاست تیاگ کر الطاف بھائی کے ارشاداتِ عالیہ کی وضاحتیں دیتی نظر آتی ہے ۔ الطاف بھائی کو ”قوم” سے خطاب کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے اور ایم کیو ایم میں ابھی کوئی ”مائی کا لعل” ایسا پیدا نہیں ہواجو اُنہیں کہہ سکے کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا” کے مصداق اُن کی تقریریں سُننے والا کوئی نہیں سوائے اُن مجبوروں اور مقہوروں کے جنہیں دروغ بَر گردنِ راوی ”ڈنڈے” کے زور پر اکٹھا کیا جاتا ہے یا پھر بیچارہ الیکٹرانک میڈیا جسے اپنے” چینلز ” عزیز ہیں ۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم دو سیاستدان ایسے ہیں کہ جن کی بات سننے سے پہلے ہی حاکمانِ وقت کانوں میں روئی ٹھونس لیتے ہیں ۔ایک الطاف بھائی اور دوسرے اپنے لال حویلی والے شیخ رشید صاحب جو ہر روز کسی نہ کسی نیوز چینل پر وہی ”بَونگیاں” مارتے دکھائی دیتے ہیں جنہیں سُن سُن کر کان پَک گئے ہیں بلکہ کئی لوگوں کے تو کان بہنا بھی شروع ہو گئے ہیں۔
Nawaz Sharif
سعودی ولی عہد کے بعد بحرین کے شاہ حمد بِن عیسیٰ الخلیفہ تشریف لائے ۔یہ بحرین کے شاہ کا چالیس سال کے بعد پہلا دورہ تھا ۔اُن کا ایئر پورٹ پر ایسا شاندار استقبال ہوا کہ کبھی دیکھا ، نہ سُنا۔وزیرِ اعظم اور اُن کی کابینہ ، تینوں مسلح افواج کے چیفس اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنفسِ نفیس اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ایسا شاندار استقبال دیکھ کر میں بھی سوچنے لگی کہ اب ہمارے پیارے ”شاہ حمد ” صاحب کی جیبوں کی بھی خیر نہیں۔شنید ہے کہ حکمرانوں نے سَترہ اٹھارہ معاہدے بحرین کے ساتھ بھی ”پھڑکا”دیئے ہیں ۔ہمارے ایک بہت معروف سینئر لکھاری جو کسی زمانے میں میاں نواز شریف صاحب کے دل کے بہت قریب اور اُن کے ”سپیچ رائٹر ”ہوا کرتے تھے لیکن جب آصف زرداری صاحب بَر سرِ اقتدار آئے تو وہ صحنِ چمنِ زرداری کی بُلبلِ ہزار داستان بَن کر نواز لیگ میں کیڑے نکالنے لگے۔اُنہوں نے بحرین کے شاہ کے اِس والہانہ استقبال کو دیکھ کر اپنا جو” ارسطوانہ تجزیہ” فرمایا ،اُسے پڑھ کر انسان کے چودہ کیا سولہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں”میرا کبوتر یہ پیغام لایا ہے کہ یہ رقم بحرین کے شیخ حمد بِن عیسیٰ الخلیفہ نے جمع کروائی ہے ۔فرمائش البتہ سعودی عرب کی تھی ، جو بحرین کے دفاعی امور کا ذمہ دار ہے ۔وہاں کئی سالوں سے اندرونی بغاوتوں نے حکومت کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے ۔بادشاہ سلامت کو تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ تربیت دینے والوں کی بھی ضرورت ہے اوربغاوتوں اور ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے درکار اسلحہ کی بھی ۔رقم وہ ایڈوانس جمع کروا چکے ہیں۔
اب مال خریدنے آئے ہیں ۔میرے کبوتر کی چٹھی میں تو یہی لکھا ہے ۔اگر یہ غلط ہے تو پھر آپ بتا دیں کہ یہ رقم کس کی ہے ”؟۔ہم نے کوئی چڑیا ، طوطا مینا یا کبوتر تو پال نہیں رکھااور نہ ہی ہماری جیب ایسے کبوتروں کے ”دانے دُنکے ”کا بو جھ برداشت کر سکتی ہے اِس لیے ہماری سمجھ میں تو جو کچھ آیا ، لکھ دیا ، یہ الگ بات ہے کہ اکثر سچ ہی ثابت ہو۔اب میاں نواز شریف صاحب نے سینئرکالم نگار اور اپنے پرانے ”بیلی” کا مُنہ یہ کہہ کر بند کر دیا کہ پاکستان سے کسی ملک نے فوج مانگی اور نہ ہی ہمارا کہیں اپنی افواج بھیجنے کا ارادہ ہے۔
اُدھر بحرین نے بھی اِن قیاس آرائیوں کی پُر زور تردید کی ہے ۔بحرین کے وزیرِ خارجہ خالد بِن احمد بِن الخلیفہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”بحرین نے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ میں نہ تو کوئی رقم دی اور نہ ہی ایسا کوئی وعدہ کیا جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی ”۔ہمیں یقین ہے کہ اب محترم سینئر لکھاری ایسے ”جھوٹے ” کبوتر کو ذبح کرکے” ڈکارنے ”کے لیے ڈھونڈ رہے ہونگے جو ”ایویں خوامخواہ” لمبی لمبی چھوڑ کر اُن کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔