ڈالرز میں بکا ایمان

Tragedy of Peshawar Victims

Tragedy of Peshawar Victims

تحریر: شاہ بانو میر
16 دسمبر والے دن شہیدوں کی قبور پر گلپاشی سے پہلے ڈالرز میں بکے ایمان نے رستے ہوئے ہمارے زخموں پر نمک پاشی کردی – “””سانحہ پشاور کے متاثرین کے ورثاء کیلئے بلاشبہ یہ ڈرامہ اچھا تاثر نہیں چھوڑے گا “” یہ ایسا جملہ تھا جس جس پاکستانی نے سنا ہوگا وہ ضرور ٹی وی کی جانب متوجہ ہوا ہوگا – پاکستان جیسے غیر مستحکم نامکمل قانونی طریقہ کار رکھنے والے ملک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس قسم کے ڈرامے بحالی شعور کیلئے بنائے جائیں اور دکھائے جائیں – میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑہی ہوں – وکالت وہیں کرتی ہوں اب پاکستان آئی ہوں – ایک غریب آدمی مجھے جیسی مہنگی وکیل نہیں کر سکتا -دوسری جانب کوئی جھوٹا شخص مجھ جیسا وکیل کر کے پاکستان کے ناقص قانونی نظام میں بآسانی کسی بے گناہ کو بھی پھانسی گھاٹ تک پہنچا سکتا ہے۔

کم و بیش اسی قسم کے کلمات وہ محترمہ فرما رہی تھیں – ہم جانتے ہیں کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے ایسے عنوان کیلئے وہ بھی راولپنڈی میں جبکہ 16 دسمبر قریب ہے – ڈرامے کیلئے بنیاد بنائی اس پاکستانی نژاد برطانوی وکیل نے اور اس کو لبیک کہا دو ایسی اداکاروں نے جو کسی طور اسلام اور ملک کے قریب نہیں ان کا رہنا سہنا بیرون ملک ہے – یہ ان کی مشترکہ کاوش ہے – اس ڈرامہ میں سانحہ پشاور کے مجرمان کیلئے سزا کا نہیں جزا کا پہلو نمایاں کیا گیا ہے – کہ ان کو معاف کر دینا چاہیے تھا پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی۔

Nine Eleven

Nine Eleven

کاش یہ مشورہ وہ امریکہ کو دیتیں جس نے 9 11 کے بعد مسلم دنیا کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے – وہاں معافی کا کہا جا سکتا ہے؟ ایسا صرف اس ملک میں ہوتا ہے جہاں ہر خواہش پرست آسانی سے بک جاتا ہے – ایسا مشورہ انگلینڈ کو دیتیں جس نے 5 جولائی کے دھماکوں کے بعد مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی – پیرس دھماکے ہوئے کوئی جرآت کر سکتا ہے کہ ایسے وقت میں حکومت فرانس سے مجرموں کو معاف کرنے کا کہہ سکے؟ کتنا بیچنا ہے اس ملک کو؟ اس کی اقدار کو اب اس کے بچوں کو ؟ پاکستانی عوام اس پر سراپا احتجاج ہوں۔

اور شدید ترین انداز میں ایسے قوم دشمن بیرونی سرمایہ کاری سے تیار ملک دشمنی پر مبنی ڈراموں کو بائیکاٹ کر کے اپنے بچوں کے خون پر سودا بازی کرنے والی ان حسیناؤں کو بتا دیں کہ ڈالر کا جادو آپ جسے طبقے پر چلتا ہے جہاں سوچ صرف مادیت پرستی یعنی ڈالر میں پوشیدہ ہے – اس سوچ کو خاموش ہی کام کرنے دیا جاتا تو اتنا دکھ نہ ہوتا -اصل دکھ تو ٹیم ورک پر ہوا – ایک چینل مایہ ناز میزبان ان کو بلا کر 15 منٹ دے کر انتہائی تکلیف دہ سوچ کو مشتہر کر کے 16 دسمبر کے قریب نمک پاشی کر رہا ہھے؟۔

کس نے میڈیا کو ملک دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دی اس نازک وقت میں ؟ کیا ڈالرز کر کرشمہ ہے؟ ایسی خواتین کو کیا معلوم اولاد کو پالنے والوں کا دکھ کیا ہے؟ فلسطین ہو یا کشمیریا برما بوسینیا ہو یا شام عراق ہو یا لیبیا ہزاروں معصوموں کے قتل عام اجتماعی قبور میں زندہ دفنانے پر ان کو کبھی ٹی وی پر آکر مذمت کرتے ہم میں سے کوئی نہیں دیکھتا – حکومت وقت کے آشیر باد کے بغی ایسا کوئی اسٹیج پلے اس نازک وقت میں کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔

Dollar

Dollar

خُدارا کوئی تو موضوع کوئی تو سانحہ ایسا رہنے دو جس کو متنازعہ نہ بناؤ – بے ضرربچوں کی المناک شہادت کو بھی دولت کی بھرمار اپنے ہی ملک میں تماشہ بنا رہی ہے؟ 16 دسمبر کو تو گھر گھر سوگ منایا جائے گا قومی سانحہ ہے ان معصوموں کا قتل عام کوئی شہادت کہے کوئی جنگ میں جیت یہ دل بہلانے والے الفاظ ان کے پیاروں کے آنسو خشک نہیں کر سکتے ہرگز نہیں۔

یہ ظلم ہوا اور اس میں کہیں گنجائش نہیں نرمی دکھانے کی نہ عمل میں نہ سوچ میں کاش یہ بیرونی ایجنٹ ملک کے غدار اس 16 دسمبر پر ڈالرز لے کر یہ بھیانک ڈرامہ کر کے ان بچوں کے پیاروں پے نمک پاشی نہ کرتے بلکہ پشاور جا کر ان بچوں کی قبور پر گل پاشی کرتے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Shah Mano Mir

Shah Mano Mir

تحریر: شاہ بانو میر