تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسجد نبوی درود و سلام کی عطر بیز مشکبو صدائوں سے مہک رہی تھی دنیا بھر سے آئے ہو ئے پروانے گنبد خضری کی ایک جھلک کے لیے دیوانہ وار کھچے چلے آئے تھے شمع رسالت ۖ کے پروانوں کے چہروں سے عشق اور دردِ عشق ‘محبت اور سوزِ محبت رسول ۖ جھلک رہی تھی سچ تو یہ ہے کہ خو ش قسمت ہیں وہ مسلمان کہ سرتاج الانبیا ء ۖ کا امتی ہو نا ان کا مقدر ٹھہرا، محبوب خدا ۖ کا امتی ہو نا یقینا اِس کائنات کا سب سے بڑا انعام ہے اِس اعزاز اور انعام کی دعا اور خواہش نبیوں پیغمبروں نے کی کا ئنات کی ‘سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ محبت کئے جا نے کے لا ئق صرف اور صرف ایک ہی ہستی ہیں جو مقصود کا ئنات اور محمود ارض و سما وات ہیں۔
جن سے خود خا لق ِ کائنات محبت فرماتے ہیں اللہ رب العزت سرور کا ئنات ۖ سے خود ہی محبت نہیں کر تے بلکہ آقا ئے دو جہا ں ۖ کی ذات کو معیار الفت اور مر کز عقیدت بنا دیا ہے اور شان دیکھیں ہما رے پیا رے نبی پا ک ۖ کی کہ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو آپ ۖ کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے جو تلا ش حق اور قرب ِ الٰہی کے مسافر کا سفر اس وقت تک منزل نہیں پا ئے گا جب تک وہ محبوب خدا ۖ کے عشق اور اطا عت میں ڈوب نہ جا ئے جب تک گلے میں آمنہ کے لال کی غلامی کا طوق نہیں پڑے گا اُس وقت تک با رگاہِ الٰہی میں جا نے کی سعادت بھی نہیں ملے گی’ ارشاد با ری تعالی ہے ۔ اے محبوب ۖ تم فرما دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہو جائو اللہ تم کو دوست رکھے گا۔
Muhammad PBUH
مشرکین مکہ کو یہ زعم تھا کہ ہم اللہ تعالی کے پیارے ہیں تو رب جلال نے سب کو حکم دیا کہ اگر تم واقعی میں خدا کی محبت رکھتے ہو تو پہلے میرے محبوب ۖ کی غلامی کرو پھر یہ ہو گا کہ تم خدا کے چاہنے والے بنو اور خدا تمہا را چاہنے والا ہو گا اور تم اُس کے محبوب اورکر ہ ارض پر بسنے والے اربوں مسلمان اِس حقیقیت کاا دراک رکھتے ہیں کہ جب تک شاہِ مدینہ ۖ کی غلا می کا طوق اُن کے گلے میں نہیں پڑے گا جب تک وہ گنبد خضری کے مکین کے در پر سوا لی بن کر نہیں آئیں گے اُس وقت تک مالک کا ئنات خدا کا پیمانہ رحمت بھی نہیں چھلکے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے (9/5) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر یں تو اے محبوب ۖ تمہا رے حضو ر حا ضر ہو ں پھر اللہ سے معا فی چاہیں اور رسول ۖ اُ ن کی شفا عت فرما دیں تو ضرور اللہ کو بہت تو بہ قبول کر نے والا مہربان پا ئیں گے اِس آیت مبا رکہ میں تو بہ قبول ہو نے کی واضح شرطیں بیان کر دیں گئیں ہیں ‘شاہِ عرب سردار الانبیا ء ۖ کی با رگا ہ میں حا ضری اپنے گنا ہوں پر آپ ۖ کے حضور تو بہ کر نا اور شافع دو جہاں شفا عت فرما نے کے واحد وکیل یا مختا ر عام ہیں جن کی شفاعت قبول ہو تی ہے یہ کیسی حقیقت ہے کہ گنا ہ تو کیا رب کا مگر کہا جا رہا ہے کہ دربا ر رسالت ۖ میں جا ئو ۔ بقول حضرت رضا بریلوی خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم خدا چاہتا ہے رضا ئے محمد ۖ
عشق کے لیے صورت و سیرت کو بنیا دی مقا م حا صل ہے بعض کے نزدیک عشق کا معیا ر حسن صورت ہے جبکہ سرور عالم ۖ کے ہا ں تو عجب عالم ہے آپ ۖ کے حسن و جما ل اور سیرت کا بزم جہاں میں کو ئی بھی جوا ب یا مثال نہیں ہے آپ ۖ اپنی صورت و سیرت میں وحدہ لا شریک ہیں سارے زما نے کے علوم الفاظ اور ڈکشنریاں تنگ دامانی اور معذوری تہی دامنی کا اظہا ر کر تی نظر آتی ہیں کہ اِس کا ئنا ت میں کو ئی ایک بھی ایسی چیز پیدا نہیں کی گئی جسے آپ ۖ کے حسن و خو بی کے نا م سے تعبیر کیا جا سکے سچ تو یہ ہے کہ ہر حسن و خو بی آپ ۖ کے قدم نا ز کا بو سہ لے کر اور خا ک پا چوم کر ہی حسن و خو بی کے لفظ سے یا دکئے جانے کے لا ئق بنی ہے ۔ آپ ۖ کی نسبت سے ذرہ رشک آفتاب اور قطرہ غیرت ما ہتاب بنتا ہے یہاں تک کہ آپ ۖ کے تصور میں جو تصویر بنی وہ بھی نبوت سے نواز دی گئی خا لق کا ئنات نے آپ ۖ کی تخلیق سے پہلے آپ ۖ کی تصویر سے پہلے ایک لا کھ تئیس ہزار نو سو ننا نوے تصویریں بنا ئی اور مٹا دیں اتنی مشق و ریا ضت اور چاہت کے بعد جو تصویر بنی وہ تصویر آمنہ کے ننھے سردار’ عبداللہ کی آنکھوں کے تا رے’ عبدا لمطلب اور حضرت ابو طا لب کے لا ڈلے سردار’ بے کسوں بے آسروں کے آسرے جن کی وجہ سے رب کعبہ نے دنیا کو سنوارا نکھا را آقا ۖ کی شان دیکھئے کہ خدا نے جن تصاویر کے خا کے ترتیب دے کر چھو ڑ دئیے انہیں بھی خلعت ِ پیغمبری اور تا ج نبو ت سے سرفراز فرما دیا۔
Muhammad PBUH
کیونکہ وہ تصویریں محبوب ۖ کی تصویر کے تصور سے منبہ شہود پر آئی تھیں حضرت آمنہ کے لال کا چہرہ انور حسن و جما ل خو بی و کما ل کا مظہر ہے آپ ۖ کا حسن کا مل ترین ہے حسن یوسف آمنہ کے لال ۖ کے حسن کی ایک تابش ہے اور دنیا بھر کے حسین و جمیل آمنہ کے سردار ۖکے حسن کی ایک ادنی جھلک ہیں خالق کا ئنا ت نے اپنے پیا رے محبوب ۖ کو وہ حسن و جما ل عطا فرما یا جس کی تعریف سے اقوام عالم کی تما م زبا نیں اور ڈکشنریاں عاجز ہیں ایسا روشن حسین و جمیل چہرہ کہ بس دیکھا ہی کیجئے ‘دیکھنے والوں نے اِس حسن و جما ل کا پیکر کبھی نہ دیکھا ‘سننے والوں نے ایسا حسین نہ سنا ایسا لا زوال بے نظیر حسین جس کے حسن و جما ل پر دیکھنے والوں نے ایمان نچھا ور کر دئیے دل و جان فدا کر دئیے ، اللہ اللہ کشش اور خو بصورتی کا یہ عالم کے ہوائوں فضائوں آسمان چاند ستاروں اور ملا ئکہ نے آپ ۖ سا حسین کو ئی نہ دیکھا آپ ۖ کا دلنواز شفیق تبسم پیا ری پیا ری ادا ئیں’ سبحا ن اللہ ما شا ء اللہ، ہیبت و جلا ل کا یہ عالم کے شاہوں کے قدم لڑکھڑا جا ئیں’ فرشتوں کے سردار جبرائیل امین مو دب سر جھکا ئے کھڑے ہوں حسن لا زوال و بے مثا ل کا یہ عالم کہ بے اختیار یہ منہ سے نکل جا ئے ایسا حسین و جمیل تو نہ اِن سے قبل دیکھا اور نہ ان کے بعد ۔ حضرت ابو نعیم فرما تے ہیں کہ حضرت یو سف کو تما م انبیا ء و مر سلین بلکہ تما م مخلوق سے زیا دہ حسن و جما ل دئیے گئے تھا مگر ہما رے نبی اللہ کے حبیب ۖ کو وہ حسن و جما ل عطا ہوا کہ جو کسی اور مخلو ق کو عطا نہیں ہوا حضرت یو سف کو حسن و جما ل کا صرف ایک جز ملا تھا اور آپ ۖ کو حسن ِ کل دیا گیا ۔حضرت رضا بریلوی فرما تے ہیں :۔
حسن یو سف پر کٹیں مصر میں انگشت زنا ن سر کٹا تے ہیں تیرے نا م پہ مر دان عرب
حضرت عبداللہ بن رواحہ فرما تے ہیں کہ حضو ر ِ سرور دو عالم ۖ کے وجود مبا رک میں وحی الٰہی معجزات اور دیگر دلا ئل نبو ت کا اثر و ظہور نہ بھی ہوتا تو آپ ۖ کا چہرہ مبا رک بھی دلیل نبوت کو کا فی تھا حضرت براء بن عازب فرما تے ہیں حضور ۖ صورت و سیرت میں با قی تما م لو گوں سے زیا دہ حسین و جمیل تھے اور ہما ری ما ں حضرت عا ئشہ صدیقہ فرما تی ہیں رسو ل کریم ۖ تما م لوگوں سے زیا دہ خو بصورت اور خو ش رنگ تھے جس کسی نے بھی آپ ۖ کی تو صیف کی اس نے آپ ۖ کو چو دھویں کے چاند سے تشبیہ دی آپ ۖ کے معطر پسینہ کی بو ند آپ ۖ کے چہرہ انور پر یو ں لگتی تھی جیسے مو تی ۔ حضرت جا بر بن سمر ہ فرما تے ہیں کہ چاندنی رات تھی اور حضور ۖ حلہ حمرا ء اوڑھے ہو ئے لیٹے تھے میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور ۖ کے چہرہ انور کو اور با لا خر میرا فیصلہ یہ ہی تھا کہ حضور ۖ چاند سے زیا دہ حسین و خو بصورت ہیں ۔ حضرت شاہ ولی اللہ فرما تے ہیں کہ میرے والد ما جد نے حضور اکرم ۖ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ۖ یو سف علیہ اسلا م کو دیکھ کر زنا ن مصر نے اپنے ہا تھ کا ٹ لیٹے تھے اور بعض لو گ اُن کو دیکھ کر مر جا تے تھے مگر آپ ۖ کو دیکھ کر کسی کی ایسی حا لت نہیں ہو ئی تو حضور اکرم ۖ نے فرما یا میرا جما ل لو گوں کی آنکھوں سے اللہ نے غیرت کی وجہ سے چھپا رکھا ہے اور اگر آشکا ر ہو جا ئے تو لوگوں کا حال اِس سے بھی زیا دہ ہو جو یو سف کو دیکھ کر ہوا تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرما تے ہیں میں نے حضور ۖ سے زیا دہ خو بصورت کسی کو بھی نہیں دیکھا یوں معلوم ہو تا تھا کہ آفتاب آپ ۖ کے چہرے پر چل رہا ہے ۔