اکیسویں صدی کی خواتین کو جن مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج اگر کسی کو قرار دیا جائے تو وہ اپنا گھر چلانا ہے۔ آج کی خواتین مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھرپر بھی کنٹرول کررہی ہیں۔ مرد جو کماکر لاتے ہیں ان کو کیسے خرچ کیا جائے یا وہ خود جو کماتی ہیں ان میں سے کس طرح پس انداز کرلیا جائے یہ آج کی عورت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے اور بیشتر گھرانوں کی عورتیں اس چیلنج کا پورے اعتماد وسلیقہ کے ساتھ جواب دے رہی ہیں۔وہ زمانہ اب باقی نہیں رہا جب عورتوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا پڑتا تھا۔
ان کا کام زیادہ سے زیادہ گھر کا کام کاج انجام دینا ہوتا تھا، آج عورتیں ہی نہیں نو عمر لڑکیاں بھی مختلف پیشوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھارہی ہیں اس لئے جب ان کے ہاتھ میں بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ گھریلو بجٹ تیار کرنے کا کام آتا ہے تو وہ اس میں مردوں سے زیادہ اہلیت اور مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔پھر بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت پڑھی لکھی ہو، امور خانہ داری میں اسے خاطر خواہ دلچسپی ہو، فضول خرچی سے پہلو بجاتی ہو، جب کسی عورت میں یہ صلاحیتیں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ گھر کا بجٹ متوازن رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔آج کے اس شدید مصروفیات کے دور میں جب مرد اپنا کاروبار چلانے یانوکری کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں تو متعدد گھروں کیلئے خریداری کا کام عورتیں ہی کرتی ہیں اور جو سلیقہ مند خاتون ہوتی ہیں وہ خریداری سے پہلے اپنی گھریلو آمدنی کو سامنے رکھ کر بجٹ بنالیتی ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف ہوتی ہیں کہ جتنی چادر ہو، اتنے ہی اپنے پیر پھیلانے چاہئے۔
بجٹ سرکاری ہو یا گھریلو وہ ایک چیلنج ہوتا ہے اور اس کو تیار کرتے وقت اپنی ضرورتوں کا لحاظ کرکے آمدنی وخرچ کو دیکھا جاتا ہے۔ انسانی ضروریات میں پہلی ضرورت اس کا مکان ہوا کرتی ہے۔ دوسری ضرورت اس کا لباس ہوتی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پہنو جو لوگوں کو پسندآئے، پھر اس کے بعد کھانے پینے کی ضرورت کا نمبر آتا ہے، سمجھدار خواتین اور گھر کی ذمہ دار اپنی آمدنی کے اندر بجٹ بناتی ہیں اور جو آمدنی کا لحاظ نہیں رکھتیں انہیں مالی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح دوسری گھریلو ضرورتوں کو پورا کرنے کی کافی اہمیت ہوتی ہے، مثال کے طور پر تعلیم کا خرچ، اخبارات کا بل، بجلی، نل اور ٹیلی فون کے ماہانہ اخراجات، تہوار، تقاریب، مہمان نوازی، سیر وتفریح اور ایسے ہی دوسرے پروگراموں کے لئے رقم کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اچھی گرہستن خواتین اپنا بجٹ بناتے وقت اخراجات کی ان سب مدوں کا خیال رکھتی ہیں اور سمجھدار بیویاں تو اپنے شوہر سے صلاح ومشورہ بھی کرلیتی ہیں اور جو ان سبھی پہلوؤں کو سامنے نہیں رکھتیں، انہیں بعد میں مالی دقتوں کا شکار ہونا پڑتا ہے اور ایک مرتبہ جب ان کے گھریلو بجٹ کا توازن بگڑجاتا ہے تو پھر وہ مہینوں سنبھالے نہیں سنبھلتا۔اس لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ شروع سے فضول خرچی کی عادت نہ ڈالی جائے اور کفایت شعاری کی زندگی گزاری جائے۔ در حقیقت گھریلو بجٹ بنانا اپنی آمدنی کو ایک توازن کے ساتھ خرچ کرنے کا دوسرا نام ہے، جس میں کفایت شعاری کافی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
Inflation
فضول خرچی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ پھر دن بدن آسمان کو چھوتی مہنگائی کے اس دور میں انسان دو باتوں پر خاص توجہ دے تو وہ سکون واطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ خرچ کرنے سے قبل سوچ لے کہ کہیں وہ غیر ضروری تو نہیں ہے، فضول چیزوں پر ایک پیسہ صرف نہ کیا جائے، کس دل میں خواہش اور امنگیں نہیں ہوتیں لیکن ان کو اپنی قوتِ خرید کا پابند رکھنا چاہئے، دوسری یہ کہ مہنگائی برق رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے لہذا مستقبل کے لئے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور پس انداز کرکے رکھ لینی چاہئے، آج کے مزہ کے لئے کل کی پریشانی مول لینے والے اچھے بجٹ ساز نہیں ہوسکتے۔بعض لوگ قرض کے سہارے اپنی گھریلو زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ جہاں تک ہوسکے قرض سے بچا جائے ایک خوشحال اور فارغ البال زندگی گزارنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی ادھار کی زندگی جینے سے بچے کیونکہ ادھار لیتے وقت برا نہیں لگتا لیکن بعد میں اس کا ادا کرنا ایک مصیبت اور جی کا جنجال بن جاتا ہے۔عام طور پر لوگ روپیہ پیسہ کمانا مشکل سمجھتے اور اسے خرچ کرنا ان کے لئے بہت آسان ہوتا ہے۔
ایسے لوگ آمد وخرچ میں توازن، کفایت شعاری اور سلیقے مندی سے کام نہیں لیتے تو ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ کئی مالدار گھرانوں میں گھر کا تمام کام ملازموں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، گھر کی مالکن بڑے کرنسی نوٹ دیکر کئی کئی دن حساب نہیں لیتیں ، مالکوں کے گھر سے غائب رہنے سے نوکروں کی بن آتی ہے، ان کے ذاتی مہمان گھر میں آنے جانے لگتے ہیں ایسے گھروں میں خانہ داری کا انظام ممکن نہیں رہتا، اسلئے ضروری ہے کہ ملازموں کو صحیح طریقہ سے تربیت دی جائے نیز گھر کی ہر لڑکی کو شادی سے قبل گھر جانے کی کچھ نہ کچھ ٹریننگ ضروردی جائے، اسی طرح گھر کے سازوسامان کی حفاظت پر بھی توجہ دی جائے، ہر صبح اور رات کو نوکر کی غیر موجودگی میں باورچی خانے کی الماریاں، برتن ، گھی، تیل اور دوسرے سامان پر نظر ڈال لی جائے۔ملازم رکھتے وقت بھی کافی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
جب تک ذمہ دار، شناسا اور مناسب ملازم نہ ملے ہرگز نہ رکھا جائے، ملازم کی پولیس کے ذریعہ شناخت کرالی جائے ورنہ اس میں تھوڑی سی بھی کاہلی برتنے سے بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ غیر ذمہ دار ملازم آپ کو مالی نقصان سے دوچار کر سکتا ہے بعض اوقات مال کے ساتھ جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ایک خاتون خانہ کی قابلیت کا اندازہ اس سے بھی لگتا ہے کہ وہ حسب حیثیت زندگی گزارے، اگر ممکن ہو تو کچھ پس انداز کرے دوسروں کی مدد میں بھی کچھ نہ کچھ خرچ کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔
کفایت شعاری یا بچت کے لئے کون سے طریقے اپنائے جائیں اس کے لئے چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، جب بازار جائیں تو اتنی ہی چیز خریدیں جتنی کہ ضرورت ہو۔ خرچ کے لئے جو رقم لے جائیں اس میں سے بچاکر لانے کی کوشش کریں۔ اپنی ضرورت کا سامان خریدنے کے بعد خواہ کتنی سستی چیز کیوں نہ ملے ہرگز نہ خریدیں۔ دکاندار جو چیزیں دکھائے دیکھ لیں ، بھاؤ معلوم کرلیں۔ لیکن ضرورت نہ ہو تو کبھی نہ خریدیں اور آمدنی کم، خرچ زیادہ نہ ہو، اس کا ہر دم خیال رکھیں، قناعت اور اعتدال پسندی سے کام لیں۔ یہی گھریلو بجٹ کے چیلنج کا معقول جواب ہوسکتا ہے۔
M A Tabassum
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور) email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102