اِن دِنوں ہمارے ایوانوں سمیت مُلک کے اِس کونے سے اُس کونے تک دیسی مرغی اور انڈوں کے چرچے عام ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج کل ہمارے یہاں مرغی اور انڈوں کا تذکرہ ہر پاکستانی کی زبان پر ثوابِ دارین سمجھ کرجاری ہے،ایسا کیوں ہے؟فی الحال اِس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ،بس اِشارتاََ عرض اِتناکرنا ہے کہ پچھلے ماہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے سودن مکمل ہونے پر منقعدہ تقریب میں اپنے دورانِ خطاب صرف ایک بار مُلکی معیشت اور اقتصادی پوزیشن کی ڈنواں ڈول ہوتی صُورتِ حال کو سہارا دینے کا تذکرہ کرتے ہوئے گاو ¿ں سے شہروں تک مرغی اور انڈوں کے کاروبار کو تقویت پہنچانے کے لئے حکومتی تعاون کی یقینی دہانی کرائی تھی ۔اُنہوں نے اِس موقع پر کہا تھا کہ اگر کو ئی مرغی اورانڈے کے کاروبار میں دلچسپی رکھے تو حکومت اِس کے ساتھ اپنا ہر ممکن مالی تعاون جاری رکھے گی تاکہ نچلی سطح تک عوام میں کاروباری رجحان پروان چڑھے۔ جس سے ایک طرف کسی حد تک بیروزگاری کے خاتمے کی راہ نکل سکے گی تو دوسری جانب عوام الناس میں مُلکی معیشت میں اپنا رول ادا کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوگا جس کے بعدمُلکی ایوانوں اور پبلک مقامات پر اپوزیشن کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین و کارکنان سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ عام و خاص اشخاص نے بھی کھل کراُچھل کودکی اور حکومت پر تنقیدوں کے زہریلے نشترچلائے ، جس کا جیسا چاہا اُس نے حکومت کا خوب مذاق بھی اڑایا، ہنوز یہ سلسلہ ابھی تھما تو نہیں ہے مگر زوراور شور سے پہلے دن کی طرح جاری ہے جو کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
حالانکہ وزیراعظم نے دیسی مرغی اور انڈوں کے کاروبار کو عوامی سطح پر پھیلانے کے لئے ایسی کوئی اِنہونی بات نہیںکہی تھی یوںجس کا مخالفین بتنگڑ بناتے اور وزیراعظم عمران خان نے ناں ہی کوئی ایسا انوکھا مشورہ دیاتھا، جو اِن سے پہلے دنیا میں کسی نے کسی کو نہیں کہی ہو یا ایسا کسی کوئکبھی مشورہ نہ دیاہو مگرپھر بھی ایوانوں میں بیٹھے اپوزیشن کی جماعتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے دیسی مرغی اور انڈے کے ایشوکو اُچھال کر سیاست میں تنزو مزاح کا عنصر بھردیا۔ جو کہ ایک مثبت سیاسی شگون تو کم نظرآتا ہے مگرآج مُلک میں حکومت سے متعلق بغض سے بھری سیاسی مخالفین کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے۔
بہرحال،دیسی مرغی اور انڈوں کے صائب مشورے پراپوزیشن کی لاکھ تنقیدوں کے باوجود بھی وزیراعظم عمران خان کا یوٹرن نہ لیا جاناآج یہ واضح کرتاہے کہ اَب جیسے وزیراعظم سمجھ چکے ہیں کہ اپوزیشن کا کام تو اچھے بھلے حکومتی کاموں پر سِوائے تنقیدیں کرنے کے کچھ نہیں رہ گیاہے۔اَب اپوزیشن جیسی بھی لاکھ حکومت پر تنقیدیں کرلے مگر حکومت کو جو کرنا ہے وہ کرکے ہی رہے گی۔
تاہم اِس پس منظر میں راقم الحرف وزیراعظم عمران خان کو ایک ایسا صائب مشورہ دینا چاہتا ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی سطح پر سنجیدگی سے عمل کرادیاگیا تو اِس سے بھی مُلک کو دیسی مرغی اور انڈوں سے زیادہ اچھا زرمبادلہ ملے گا اورمُلک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے میں بھی بڑی حد تک کمی لائی جا سکے گی مگر شرط صرف اِتنی سی ہے کہ حکومت میرے مشورے عمل کرے تو پھرخوددیکھے گی کہ چند ہی ماہ میں بیرونِ ممالک سے زرمبادلہ کتنا آتاہے اور اِس کاروبار میں شہروں اور گاو ¿ں کی سطح پرشہریوں کے درمیان مقابلے کا رجحان کیسے بڑھتاہے۔
یہاں مجھے کہنے دیجئے کہ آج وفاق سمیت صوبوں ، شہروں اور گاو ¿ں میں آوارہ کُتوں کہ بہتات ہے، جہاں سے آئے روز سینکڑوں آوارہ کُتوں کے شہریوں کوکاٹے جانے کی خبریںمیڈیا کی زینت بنتی ہیں اور مُلک بھر سے ماہانہ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کو کُتوں کے کاٹے جانے کی رپورٹیں اسپتالوں میں درج ہوتی ہیں۔
بیشک ، اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ مُلک میں آوارہ کُتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ذمہ دار وہ ادارے بھی ہیں جو اِن کے مارنے پر معمور ہیں۔ مگر وہ افسران کی عدم توجہ اوروسائل کی عدم فراہمی کے باعث اپنے کام میں کوتاہی برت رہے ہیں جس کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق مُلک بھر میں آوارہ کُتوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے جو کہ کسی بھی زمانے کی کسی بھی سنجیدہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے تھی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی سال گزرجانے کے باوجود بھی کسی بھی سطح پر اِس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی آج جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سارے مُلک میں آوارہ کُتوں کی تعداد جہاں بڑھتی جارہی ہے تو وہیں اِن کے ہر عمر کے شہریوں کے کاٹے جانے کے واقعات میں بھی بے لگام اضافہ ہوتاجارہاہے ویسے تو مُلک میں آوارہ کُتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور حکومتی سطح پر اِن کی روک تھام اور اِن کے خاتمے کے لئے صفراقدامات پر ہر پاکستانی کو تشویش ہے ۔
گستاخی معاف ،مُلک میں آوارہ کُتوں کی بہتات پر راقم الحرف کا حکومت سے اِتناکہناہے کہ آج اگر حکومت مُلک سے آوارہ کُتوں کے خاتمے کے لئے حقیقی معنوں میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو اِس سے بھی تھائی لینڈ اور کوریا جیسے وہ دیگر ممالک جہاں کے باشندوں کی کُتے کا گوشت پسند یدہ غذا کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر ہماری حکومت باقاعدہ سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مُلک بھر کے آوارہ کُتوں کوتھائی لینڈ ، کوریا اور دیگر ایسے ممالک جہاں کُتے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔پنے یہاں پائے جانے والے آوارہ کُتے اِن ممالک کو سیکڑوں ڈالرز کے حساب سے برآمد یا فروخت کردے ۔تو اِن کی فروخت سے بھی مُلک میں اربوں کا زرِمبادلہ لایا جاسکتاہے، بس حکومت کوصرف یہ کرناہوگا کہ وہ اپنے ایک حکم نامے یا ایک نوٹیفیکیشن سے صوبوں کی ضلعی انتظامیہ اور عوام الناس کو یہ باور کرادے کہ جو بھی ادارہ یا شہری اپنی حفاظت کرتے ہوئے جتنے کُتے پکڑ کر دے گا ۔
حکومت اُسے اُجرت کے ساتھ انعام بھی دے گی ،یقینا اِس حکومتی اقدام سے جہاں ایک طرف مُلک میں بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا ،تو وہیں مُلک بھی آوارہ کُتوں سے بھی پاک ہو جائے گا۔تواِسی کے ساتھ مُلک میں بیرونی زرِمبادلہ بھی آئے گا۔ مذاق سے ہٹ کر آخر حکومت سوچے کہ آوارہ کُتوں نے مُلک بھر کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ آج کُتوں کو نہ تو کوئی مارنے والا ہے اور نہ ہی کو ئی پکڑنے والاہے۔ تب ہی مُلک بھر میں آوارہ کُتوں کی بہتات ہے۔ آج اگر حکومت راقم الحرف کے اِس مشورے پر عملدرآمد کرلیتی ہے۔ تو پھرحوصلہ اور اُمید رکھے کہ آئندہ آنے والوں کے لئے بھی یہ سلسلہ چل نکلے گا اور کُتوں کی برآمد سے مُلک کو سالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ کی شکل میں حاصل ہوگاجوکہ ممکن ہے کہ آگے چل کر سرکاری سطح پر باقاعدہ طور پر صنعت کا درجہ اختیار کر جائے۔(ختم شُد)