آج کم از کم اِس سے توکسی کو اِنکار نہیں ہے کہ مُلک کے موجودہ سیاسی ماحول میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک ہی سکے کے دورُخ نظر آرہے ہیں۔ کیوں کہ دونوں جمہوری پنڈتوں نے اپنے چکروں میں عوام اور مُلک کو پیس کررکھ دیاہے۔اِن کے رویئے یہ ظاہر کررہے ہیں کہ جیسے دونوں نے ہی عوامی مسائل حل نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے۔
اَب تو عوام کا ایک بڑا سنجیدہ طبقہ حکومت اور اپوزیشن والوں کے غیر سنجیدہ تندو تیز غیر سیاسی لب و لہجہ پر یہ تک کہنے لگا ہے کہ جیسے اپوزیشن اور حکومت کو عوامی تکالیف اور محرومیوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہے ۔اگر اِن میں احساس ذمہ داری ہوتی اور اپنے کئے جانے والے کاموں اور عوامی فلاح وبہبود کے لئے فوری اُٹھائے جانے والے اقدامات کا سنجیدگی سے اندازہ ہوتاجو کہ ابھی تک نہیں ہے؛تو یقینی طور پر موجودہ حکومت اور اپوزیشن مل کر عوام کے لئے کچھ نہ کچھ اچھا ضرور کرگزرتے ؛ مگر افسوس صد افسوس ہے کہ آج نہ تو حکومت ہی عوامی مسائل اور پریشانیوں اور الجھنوں کا دیر پاحل تلاش کرنے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کو تیار ہے۔ اور نہ ہی حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں عوامی دُکھ درد کی بیداری کی کوئی رگ بھڑک رہی ہے ؛ غرض یہ کہ حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف دونوں ہی عوامی ووٹ سے حکومت میں آنے کے بعد ووٹ کی بے توقیر کرتے ہوئے اپنی سیاست کی اَمر بیل کی آبیاری کرنے میں ایسے مصروفِ عمل ہیں کہ جیسے اسی سے عوامی مسائل حل ہوں گے۔
آج اتحادیوں کی ایڑیوں پر کھڑی حکومت نے توعوام کے منہ سے سوکھی روٹی کا لقمہ بھی چھین لیا ہے ؛یہی نہیں بلکہ اتحادیوں کے غبار سے بنی حکومت نے عوام کے لاغرجسم اور کمزور کاندھوں پر بغیر تعبیر والے اندھیری سیاہ رات کی طرح کے نام نہاد خوشحالی کے سُنہرے خوابوں کی گٹھڑی رکھ دی ہے۔ جب کہ اپوزیشن نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر حکومت اور اداروں سے محاذ آرائی کے بہانے ڈھونڈ لئے ہیں۔ اور سوچ رکھا ہے کہ اِسے نہ خود کچھ کرنا ہے۔ اور نہ حکومت کو کچھ کرنے دینا ہے ۔ اَب تو حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی محاذ آرائی کی یہ صُورت دیکھ کر یقین ہوگیاہے کہ جیسے دونوں نے ہی عوام کو یکسر نظر انداز کرکے ٹائم پاس کے نظریئے کو تھام لیا ہے اور اپنا اُلوسیدھاکرنے اور اپنی مدتیں پوری کرنے کے بعدقومی خزانے سے کھایا پیاسب کچھ اور اپنی کمر پر ہاتھ صاف کرکے چلتے بننے کا سوچ رکھا ہے۔
بہر حال،حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش میں جاری مُلکی سیاست ووٹ جھوٹ اور بوٹ کے گرد گھومتی محسوس ہورہی ہے ۔آئے روز کبھی حکومت کوئی نیااحتساب کا فتنہ لے آتی ہے؛ تو اکثر اپوزیشن اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے اپنی احساسِ محرومی کا ڈھونگ رچاکر حکومت کے لئے پریشانیوں میں اضاضے کا نیا جھنڈا اُٹھائے ؛آہ وفغاں کرتی سڑکوں پر نکل کھڑی ہوتی ہے ۔گویا کہ دونوں ہی جانب سے ٹانگیں آڑانے پر پریشانیاں بڑھا نے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے بے حس رویوں سے یوں لگتاہے کہ جیسے اَب کسی تیسری قوت کو ڈنڈا اُٹھا کر دونوں کو بہت جلد سیدھا کرنا لازمی ہوگیاہے۔ ورنہ اِن کی آپس کی لڑائی جھگڑے اور کھینچاتانی کی وجہ سے ایک طرف تو عوام مہنگائی ، بھوک و افلاس اور بنیادی حقوق سے محرومی کے ساتھ زندہ درگور ہوہی رہے ہیں ۔تودوسری جانب رہی سہی مُلکی معیشت اور استحکام کا بھی بہت جلد بیڑاغرق ہونے جارہاہے۔
ویسے بھی ہماری مُلکی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ اقتدار کے پنڈتوں ( حکمرانوںاور اپوزیشن )نے ووٹ کی سیاست کو جھوٹ کے مینار پرپروان چڑھایاہے۔ اور اِس کی اتنی پوجاپاٹ کی ہے کہ ووٹ کو اقتدار کے پجاریوں نے جھوٹ کے جھنڈے تلے مسل کارکھا اور جب ووٹرز نے اپنا بنیادی حق مانگاہے؛ توعیار و مکار حکمرانوں اور سیاست دانوں نے مل کر عوام کی کمر مہنگائی اور بھوک وافلاس کے بوجھ سے دُہری کردی۔ اور غریب ووٹرز کے بازوں کوٹیکسوں کی بھرمار سے مڑور کر خشک لکڑی کی طرح توڑ کر رکھ دیا۔آج بھی نئے پاکستان اور تبدیل کا خواب دِکھا کر اقتدار سنبھالنے والے پی ٹی آئی کے سربراہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی حکومت کے 19بیس مہینوں میں وہی کچھ کیا ہے۔ جو پچھلے حکمران کرتے آئے ہیں۔اِنہوں نے بھی اِس عرصے میں عوام کے لئے سِوائے سبزباغ دِکھانے اور دل فریب و دل لکش جملوں کے ساتھ بغیر اچھی تعبیر کے خواب دِکھانے کے ایک رتی کا بھی کوئی کام نہیں کیا ہے۔ کوئی بھی ایسا قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ جس سے عوام کو کسی خوش گوار تبدیلی کا احساس ہو۔
یعنی کہ ابھی تک وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں عوام کے سر سے بھوک اور افلاس کا سایہ نہیں چھٹاہے۔ حا لا ںکہ اِن کے بھی حکومت میں آتے ہی بہت بڑے بڑے دعوے اور وعدے تھے۔ جن پر عوام نے آنکھ بند کرکے اعتماد کیا تھا اور مُلکی اقتدار اِنہیں سونپ دیا ۔مگر افسوس ہے کہ ابھی تک وزیراعظم عمران خان بھی عوامی توقعات پر پورانہیں اُتر سکے ہیں۔ جبکہ عوام کو اِن سے بہت سی مثبت تبدیلیوں کے ساتھ اچھائی کی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ مگرآہ آہ۔۔!!اَب تک عوام کے دامن میں مایوسیوں اور نااُمیدوں کے سِوا کچھ نہیں آیاہے۔یعنی کہ اِن سطور کے تحریر کرنے تک وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بائیس کروڑ پاکستانیوں کے لئے کچھ اچھا نہیں کردِکھایا ہے۔
عوامی کی حکومت سے وابستہ تمام اچھی اُمیدیں بھاڑ میں چلی گئیں ہیں ۔۔۔!!دنیا کی بہترین جمہوریت میں عوام کو جمہوری ثمرات دہلیز پر نصیب ہوتے ہیں۔مگر ہمارے یہاں تو جمہوریت سیاسی پنڈتوں کی لونڈی اور غریب کی کتیا بن گئی ہے۔ یا بنادی گئی ہے۔خالی پیٹ عوام کو جمہوریت سے کیا لینا دینا ہے۔ اِسے تو پیٹ کی آگ بجھا نے کے لئے روٹی چاہئے۔ جو ابھی تک جمہوریت کی مالا جپنے والے دونوں پنڈتوں(حکمران اور اپوزیشن)والے نہیں دے سکے ہیں۔ آج مُلک میں مہنگائی لمحہ بہ لمحہ بے لگام ہوتی جارہی ہے؛ مگراِسے نہ عوامی مینڈیٹ کے دعویدار حکومت روک سکے ہیں۔ نہ بہانے بہانے سے اپنے مفادات کے خاطر سڑکوں پر نکلنے اور عوام کو رودھو کر شاہراہوں پر لاکر احتجاج کرانے والی اپوزیشن ہی کچھ کرپائی ہے۔راقم الحرف کو اِس موقعہ پریہ کہنے دیجئے بس حکومت اور اپوزیشن کی ڈرامہ بازی بہت ہوگئی ہے ویسے بھی کب ایسی صُورتِ حال میں ووٹ ، جھوٹ اور بوٹ پر سیاست کرنے والے لاتوں کے بھوت باتوں سے مانے ہیں؟ اِنہیں توبس ڈنڈاچاہئے.!!(ختم شُد)