نادرا ..نادر شاہی بے حس ادارہ ،سمسون زکریا کاپہلا مراسلہ نوائے وقت ٤ جون لاہور،پنڈی اسلام آباد ،دوسرا مراسلہ روز نامہ نئی بات لاہور پنڈی اسلام آباد ٢٠،ستمبر ٢٠١٤کو شائع ہوأ،مگر بے حس نادراکی طرف سے کوئی وضاحتی جواب نہ ملا ،پھر اس نے ٥،اگست کو کورئیر کے زریعہ تحریری طور پر تمام صورت حال جو اُس کے ساتھ ہوأ اور ہو رہا بھیجی مگر بے حس نادرا کی طرف سے سوائے خاموشی کہ کوئی جواب نہ ملا دونوں مرسلات کی کاپی مجھے بھی دیں
کہ اس نے مراسلہ میں جن دستاویز کا زکر کیا وہ کسی بھی طرح مسترد نہیں کی جاسکتیں، لیکن ،چونکہ نادرا خود مختار ریاست ہے اسکا اپنا آئین اور قانون، کسے قبول کرتا اور کسے مسترد کرتا مثلاً مڈل سنڈرڈ سرٹیفیکیٹ ،کل پاکستان سکاؤٹس آٹھویں جمبوری کوئٹہ١٨ ستمبر ١٩٨١کی سند، میٹرک کی سند ١٩٨٨ ان میں اہم ترین ڈومیسائل ١٩٨٩جس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاھور کے دستخطہ مع مہر موجود ہیں دیگر دستا ویز بھی،مگر نادرا حکام کوئی دلیل قبول کرنے کو تیار نہیں صرف ایک ہی رٹ تھی کہ پہلے کیوں یاد نہ آیا ٩ برس تک استعمال کرنے کے بعد اب جاؤ اخبار میں اشتہار دو،مجسٹریٹ فرسٹ کلاس سے اشٹامپ پیپر پر بیان حلفی لاؤ، مطلب یہ کے دو تین دن کی قربانی اور اشٹامپ پیپر ،یہ کوئی چھ،سات ہزار کا نسخہ غریب پریشان تھاگویا، ٩ برس یعنی ٢٠٠٥سے اب ٢٠١٤ تک ہر ہر برس نئی سجر بھینس کا دودھ بھی پیتا اور اسے خوب استعمال کیااور یہ نادرا کے حکام تو دوسری دنیا سے آئے ہیں یہاں پاکستان میں ان کیڑے مکوڑوں کے شب و روزکیسے گزرتے ہیں وہ بچارے نہیں جانتے.
میں نے سوچاکیوں نہ اُن کی راہنمائی کے لئے ،ان ا نسان نما کیڑے مکڑوں کے بارے میں بھی لکھا جائے پرشرط یہ کہ اگر یہ تحریرسرد خانے میں بیٹھے کسی ڈی جی نادرا تک پہنچ گئی یا پھر وزارت داخلہ جہاںان کیڑے مکوڑوں کا کوئی نمائندہ بھی! اِس بارے یہ کہناہے کہ جس قبیل سے اسکا تعلق ہے انہیں شناختی کارڈ استعمال کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ورنہ تو اُسی وقت ٹھیک ہو سکتا تھا مگر غریب ہے دو ایک مرتبہ چکر لگائے، جیسے اب چار ماہ سے دھکے کھا رہا ہے مگر کوئی سُننے کے لئے تیار نہیں، پھر اسکا مراسلہ روز نامہ نئی بات میں ٢٠ ستمبر کو شائع ہوأ جس میں لکھا ہے ڈیڑھ ماہ ہوأ چئیر مین نادرا کو تمام صورت حال لکھ کر بھیجی مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا جبکہ نادرا حکام کی یہ اخلاقی زمہ داری بھی تھی کہ جواب دیا جاتا ۔ مگر وہاں غریب کی کون سنتا ہے اگر تو ضرورت ہوتی توپھر
یہی سوچکر خامو ش ہو گیا کہ جب کبھی نیا بنے گا تب ٹھیک ہو جائے گا مگر غریب کو یہ علم نہیں تھا کہ اتنے برس سجر بھینسوں کا دودھ پینے کے بعد مشکلات میں مزیداضافہ نادرا ،اور وزارت داخلہ کے اعلےٰ حکام کے نالج کے لئے کہ وہ اس دنیا کے لوگ نہیں وہ نہیں جانتے کہ ان غریبوں کو یہ صرف اس دہشت گردی کے دور میں ناکوں پر دکھنا ہوتا جو فوٹو کاپی سے بھی کا م چل جاتا ہے یا پانچ سال بعد اگر ووٹ کے لئے جائیں تو ضرورت ہوتی ہے ورنہ! اب رہا سوال استعمال کرنے کا ، نہ توانہیںبنک سے قرض لینا اور نہ ہی معاف کراناہوتا ہے
Passport
نہ تو پاسپورٹ، نہ ہوائی ٹکٹ کی اور نہ امیگریشن کی ضرورت ،نہ ہی زمین کی خرید و فروخت،نہ گاڑی کی خرید اور ٹرانسفر اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس ،نہ ہی اسلحہ لائسنس کے لئے، بھلا یہ غریب اسے کہاں استعمال کرتا ہے ،پاکستان میں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ،کیوں نہیں ؟کہ اُن کے پاس گھر نہیں اُن کے گھر اُن کے کندھوں پر اُس نے پھر مجھے بتایا کہ میں ١٩ ستمبر کو تیسری مرتبہ برکی روڈ،آج ضرار شہید روڈجو کبھی ہریکے روڈ تھا واقع نادرا آفس گیا اُن کے کہنے کے مطابق اخبار میں دئے گئے اشتہار لے کر گیا تو انہوں نے پھر اعتراض لگایا کہ ،اشتہار میں جو لکھا گیا ہے کہ نادرا ،کی غلطی ،یہی غلط ہے
جب میں نے اسرار کیا تو انہوں نے شاہی حکم دیا کہ جاؤ عدالت میں ،انہیں علم ہے کہ غریب عدالت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے ،اور میں کیا کرتا،خاموشی سے واپس ہوأ،ایک بیٹا ہے جس نے نوکری تلاش کی ہے مگر وہ بھی شناختی کارڈ مانگ رہے ہیں ،غلط بناؤں تو پھر اگر یہ ضرورت نہ ہوتی تو شائد اب نہ بنواتا اِس کی مشکل سُن کر دکھ ہوأتو میں نے اسلام آبانادرا ہیڈ آفس فون کیا کوئی خاتون آفیسر بول رہی تھی خاطر خواجواب نہ ملا ،ہر روز ہی اخبارات میں نام کی درستگی کے اشتہار ہوتے ہیں مگر میڈیا نے بھی غریب عوام کی اِس مشکل کیلئے کبھی کوئی شذرہ نہیں لکھا اسی لئے تو وہ غریب کو دھکے دیتے ہیں
میں نے دیکھا یہ مشکل صرف غریب عوام کے لئے ،خواص کے لئے نہیں،وہ اگرکبھی اس سے دو چار ہوتے تو شائد کوئی حل نکل آتا ،خواص کو ہر وقت شناختی کارڈ کی ضرورت ہوتی ،اس لئے ان کے کارڈ میں اول تو ایسی غلطی ہوتی نہیں اگر سوئے اتفاق کہیں ہو بھی جائے تو وہ اسی وقت درست کرا لیتے ہیں ،مگر غریب کو اسکی ضرورت ہی نہیں ہوتی اب اسکو بھی ٩ برس کے بعدجب کارڈ گم ہوگیا اور دوبارا حاصل کرنا تھا تو پھر درست کرانا چاہا ورنہ تو شائد ریاست نادرا کا اپنا قانون و آئین مگر اُس میں غریب جنہیں میں عوام نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے کہتا ہوں کے لئے کوئی ایسی شق نہیں جس سے غریب کے لئے کوئی اسانی یا ریلیف کا پہلو نکلتا ہو اگر ایسا ہوتا تو پھر اس غریب کی درخواست جو چئیر مین نادرا کوبھیجی گئی
جواب ضرور ملتا وہ غریب میرے پاس پھر آیا کہا میں نے انکے مطالبے پورے کئے اور ٢٩ ستمبر کو ،وہ تمام کاغذات ، اخباری اشتہا ر،سٹام پیپر،وغیرہ لے کر گیا تو تب کہا گیا کہ اُسی نام و پتہ سے کارڈ بنے گا جو گُم ہو گیا ، اور پھر نام کی درستگی لئے…،میں یہ سُن کر چکرا گیا ، میں اسی لمحے نادرا ہیڈ آفس اسلام آباد فون کیا ،لاہور سے بدر سرحدی ،کسی زمہ دار شخصیت سے ملائیں ،کوئی خاتون بول رہی تھیں پہلے اُس نے میرا انٹرویو کیا بڑی مشکل سے کوئی نمبر ملایا پھر وہی خاتون ، پوری کہانی سننے کے بعد کہا کارڈ نمبر دیں کارڈ نمبر میرے پاس نہیں ،اپنا نام بتا دیں میں نمبر حاصل کرکے اُس نے اپنا نام تاشفین بتایا اور جب دوبارا فون کیا تو پھر کوئی اور خاتون تھی بڑی جرح کے بعد اُس نے بتایا کے کوئی تاشفین نام خاتون نہیں مرد ہے
اسی سے ملائیں،ساری بات اُسے پھر سے سنائی انہوں نہ کہا پہلے غلط نام کاجو بنا تھا اب وہی بنے گا ….یہ جواب سُن کر میرا بلڈ پریشر بڑھ گیا …سخت لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے کہا ،اگر یہی کچھ ہونا تھا تو چار ماہ تک اُس غریب کو پریشان کیوں کیا… ،انہیں ان پڑھ تو نہیں کہہ سکتا کے سب کے پاس ڈگریاں …چاہیے جعلی ہوں مگر جاہل کہنے میں کوئی عار نہیں ،جو بات اب چار ماہ کے بعد کہی کہ پہلے اسی نام سے بنے گا اور پھر .تو یہی بات ٦جون کو سرور روڈ کے نادرا آفس میں مسٹر فہد، جس نے فون کر کے بلایا کہہ دیتا تو چا ماہ دھکے کھانے اور وقت ضائع اور پریشانی سے بچ جاتا ،اور لیکن کون پوچھے کس سے پوچھے ،کون جوب دے گا کیوں کہ یہ نادر ا نادر شاہی ادارہ یہی نہیں عوامی خدمت کے تمام ادروں کا عوام جنہیں میں کیڑے مکوڑے کہتا ہوں کے ساتھ یہی رویہ ہے،کہ یہ بے حس معاشرے کا حصہ ہیں