اپنے وزیر ِخزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی فلور پر ایک سنگین بات کہہ ڈالی ہے دنیا سمجھتی ہے پاکستان کے ارکان ِ اسمبلی ٹیکس چورہیں تمام امراء اپنا ٹیکس ایمانداری سے دیں تو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی ٹیکس چوری قتل سے بھی بڑا جرم ہے”یقینا وزیر ِخزانہ نے ایک اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیاہے پاکستان کے بیشتر ارکان ِ اسمبلی خودبھی ٹیکس نہیں دیتے بلکہ ان کے چمچوں کے چمچے بھی ایسا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں بناہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ؟
اس ملک کے زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے بااثر لوگ ہی اصل میں مسائل کی اصل وجہ ہیں جنہوں نے آج تک اس ملک کا کوئی سسٹم نہیں بننے دیا فیوڈل لارڈ ہوں یا درگاہوں سے وابستہ سیاستدان، ارکان ِ اسمبلی ہوں یا سرمایہ دار یا پھر بیوروکریسی اور افسر شاہی پر مشتمل اشرافیہ جس نے پاکستان کا پورے کا پورا سسٹم یر غمال بنا رکھا ہے ان طبقات کی آپس میں گہری رشتہ داریاں ہیں درحقیقت یہ اندرسے ایک ہیں جب بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے
یہ متحد ہو جاتے ہیں یہ پوری ایک چین ہے کوئی اول تو اس سسٹم میں شامل ہی نہیں ہو سکتا متوسط طبقہ کا کوئی فرداس میں شامل ہو بھی جائے تو وہ بھی ان جیسا ہو جاتاہے یہ وہی لوگ ہیں جو زرعی ٹیکس لگانے کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔۔جو قوم کو اپنی اصل آمدن بتانا بھی گوارا نہیں کرتے سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں کو عام آدمی کی مشکلات کا کیا احساس ہو سکتا ہے جس طرح ساون کے اندھے کو ہرا ہرا سوجھتاہے اسی طرح اشرافیہ کو بھی لوگوں کے معاملات سے سروکار نہیں ان حالات میں پاکستان میں عام آدمی کسی بھی طریقے سے خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا عام شہریوں میں کوئی بہت زیادہ محنت کرلے۔ یا۔ اس کے فیملی ممبر بیرون ممالک ملازمت یا کاروبار بھی کرلیں اس کی دو تین نسلوںکا مقدر پھربھی غربت ہے۔۔
وزیر ِخزانہ اسحاق ڈارنے ایک اور بات کہی ہے ہمیں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کے وسائل بہترہو سکیں ۔۔اس ضمن میں سچی اورکھری بات یہ ہے کہ زرعی ٹیکس لگانے سے ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے گی لیکن یہ ٹھوس حکمت ِ عملی ،بہتر پلاننگ اوراچھی منصوبہ بندی کی متقاضی ہے زرعی ٹیکس وصول کرنا 1973 ء کے آئین کے تحت صوبوں کی صوابدید ہے ماضی میں کچھ ارکان ِ اسمبلی کی خواہش تھی کہ زرعی ٹیکس کا نظام وفاق کے زیر ِ انتظام ہو نا چاہیے
PML-N
جس پر مسلم لیگ ن کی گذشتہ حکومت نے 1998ء میں زرعی ٹیکس کا نیا مسودہ تیار کیا جسے اس وقت چاروں صوبائی اسمبلیوں سے پاس بھی کروایا گیااسی سال وفاقی حکومت نے زرعی ٹیکس وصول بھی کیا لیکن فیوڈل لارڈ، بڑے زمینداروں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اعدادوشمار کی ایسی جادوگری دکھائی گئی کہ پنجاب میں محض 75 کروڑ اور سندھ میں صرف 70 کروڑ روپے وصول کئے جاسکے جبکہ با خبر لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومتی خرچہ اس سے زیادہ ہو گیا یعنی ”ٹکے کی بڑھیاآنہ سر منڈھوائی”۔۔۔یوں وفاق نے اگلے سال زرعی ٹیکس کو بھاری پتھر سمجھ کرچھوڑ دیا
اپنے مجبور تقدس کے سہارے ساغر دیر و کعبہ کے خدائوں سے لپٹ کر رولوں
یوں اب تلک کوئی حکومت عملاً زرعی ٹیکس لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اسمبلی میں اس بارے میں بات ہی نہیں کی جاتی یا پھر اسمبلی ہائو ہو کا شکار ہوکر مچھلی منڈی بن جاتی ہے۔۔۔ حکومت بھی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کا اصل مسائل میں بڑا مسئلہ غربت ہے کہا جاتا ہے کہ بیشتر جرائم غربت کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والی چوری، ڈکیتی، راہزنی اور قتل و غارت کی بڑی وجہ غربت ہے جس سے سماجی ناانصافیاں اور دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہے ایک عالمی ادارے کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے اس وقت پاکستان میں 75% سے زائد شہری خط ِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسرکررہے ہیں خود ہمارے وزیر ِخزانہ نے54% کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے جب تک ٹیکس چوری ختم نہیں ہوتی ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوگا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس چوری ختم کرنے کااختیار کس کے پاس ہے؟ کیا کوئی عا م آدمی ایسا کرسکتا ہے۔
کون سنے میری فریاد ؟ منصف سارے بہرے ہیں
ان حقائق کی روشنی میں اگر’ دنیا یہ سمجھتی ہے پاکستان کے ارکان ِ اسمبلی ٹیکس چورہیں۔۔۔تو کیا ان ٹیکس چوروں کو ئھی مطلق احساس نہیں ہوتا کہ دنیا ان کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔ اسی طرح ایک چور اپنے چور بیٹے کے ساتھ کہیں جارہا تھا کسی نے انہیں دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہا” چور جارہے ہیں ۔۔۔یہ سن کر چور کے بیٹے کو بڑا غصہ آیا وہ لڑنے کی نیت سے آگے بڑھا تو اس کے باپ نے کہا چھوڑو! کہنے دو ۔۔۔ کہنے سے کیا ہوتاہے؟ ۔۔شاید ان ٹیکس چوروں نے بھی اسی فارمولے پر عمل کرلیا ہے کہنے دو ۔۔۔ کہنے سے کیا ہوتاہے؟ بہرحال ایک بات ہے اگر اپنے وزیر ِخزانہ اسحاق ڈارنے واقعی معاملات کچھ بہتر کرلئے تو نہ صرف ملکی معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ غربت کم ہونے میں بھی مدد ملے گی اور انہیں اسمبلی فلور پر یہ بھی نہیں کہنا پڑے گا ” دنیا سمجھتی ہے پاکستان کے ارکان ِ اسمبلی ٹیکس چور ہیں”