تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ امریکہ کے صدر، ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازہ فیصلہ ، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کر کے، امریکا کو دنیا میں پہلی دفعہ شرمندگی سے دوچار کیا ۔ گو کہ یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے امریکی حکومت نے بہت پہلے سے ایک قانون بنایا ہواتھا کہ مقبوضہ فلسطین کے شہر تل ایب میں قائم امریکی سفارتخانے کو مسلمانوں کے قبلہ اول بیت لمقدس یوروشلم میں منتقل کیا جائے گا۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک، کسی بھی امریکی صدر کو اس پر عمل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ یہ کام امریکا کے متنازہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اعلانیہ مسلم دشمنی میں کرنے کی کوشش کی۔ جس پر اس کو پر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر بنتے ہی چھ اسلامی ملکوں کے باشندوں کو امریکا میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگائی تھی۔ جسے امریکی عدلیہ نے اپنے ایک فیصلہ میں رد کر دیا۔ ویسے بھی ٹرمپ کی مد مقابل ہیلری کلیٹن نے ٹرمپ پر روس سے سازباز کر کے صدر بننے کا الزام لگا تھا۔ ٹرمپ کی اخلاقی کمزوریاں بھی کھلے عام بیان کی جاتی رہیں۔ اس سے قبل امریکی معاشرہ اخلاقی بدعملی میں اپنے ایک صدر،کلیٹن کو بیدخل کر چکا ہے۔ اب ایک اور اعلانیہ بد عمل صدر کا سامنا ہے۔امریکا میں ٹرمپ کے خلاف اختلافات جنم لے رہے ہیں۔
امریکا میں ایک سروے کے مطابق امریکی عوام کے دو تہائی شہریوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بنانے پرپشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیںٹرمپ سے پہلے امریکا کو اتنی مشکلات نہیں تھیں جتنی اب جھیلنی پڑتی ہیں۔ شاید اسی تناظر میںسابق امریکی سینئر سفارت کاررابن رافیل نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا اب مکمل سپر پاور کی حیثیت کھوتا جا رہا ہے ۔جہاں تک امریکا پاکستان نام نہاددوستی کا تعلق ہے تو ٹرمپ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم دہشت گرد نرنیدرد مودی کی ہاں میں ہاں ملا کر مسلم دشمنی میں پیش پیش ہے۔ دونوں مل کر پاکستان کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتے۔پاک چین اقتصادی راہداری کوثبوتاژ کرنے میں شامل ہیں۔ امریکا نے حال ہی میں ایک رپورٹ بھی لیک کی ہے۔ جس میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کی سازش تیار کی ہے۔ ان دونوں نے پاکستان کے خلاف ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا ہوا ہے۔دونوں مل کر افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔آئے دن پاکستان کو دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرے۔ہم ایسا پاکستان چایتے ہیں جو افغانستان کو غیر مستحکم نہ کرے۔ پاکستان کو ہر سال دہشتگردی کے خلاف خطیر رقم دیتے ہیں۔اُدھر امریکا نائب صدر اور پینٹا گون کے بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم برائے فروخت نہیں۔ ہمیں امریکی امداد نہیں اعتماد چاہیے۔ امریکا ان لوگوں کو بھی تنبیہ کرے جوافغانستان میں منشیات کی پیداوار،بدعنوانی،حکومت کو ختم کرنے داعش کو جڑیں پکڑنے میں ملوث ہے۔
صاحبو!امریکا نے افغانستان پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہاں پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی پھیلانے کے لیے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے۔ کیا امریکا اس پر ڈرون حملہ کر کے قتل نہیں کر سکتا۔ہمیں ڈو مور کی دھمکیاں دیتا ہے۔ ہمارے سپہ سالار نے امریکا کی دھمکی کے جواب میں صحیح کہا ہے کہ اب ہم امریکا کی جنگ پاکستان میں نہیں آنے دیں گے۔ امریکا جانے اور افغانستان جانے۔ہاں ہم امن کی ہر کوشش میں تعاون کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ اب امریکا اور اس کے اتحادی ڈو مور کریں۔اس وقت چین نے بیان دیاہے کہ چین دہشت گردی کے معاملہ پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور قربانیوں کاا دراک کرے۔جہاں تک امریکا کی امداد کا طعنہ ہے تو اب تک اس امداد سے زیادہ، یعنی ١٥٠ ارب ڈالر کا پاکستان کو نقصان ہو چکا ہے۔ ان حالات میںامریکا کے سفارت خانے کو یروشلم میں منتقل کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان ،ترکی،ملائیشیا، اردن، لبنان، انڈونیشیا سمیت دنیا بھر میں امریکا کے خلاف مسلمانوں نے مظاہرے کیے تھے۔
ترکی اس وقت او آئی سی کا صدرہے۔ ترکی نے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلایا۔ جس میں ساری مسلم دنیا نے ٹرمپ کے اس فیصلہ پر سخت رد عمل ظاہر کیا۔ امریکا کو اپنا فیصلہ واپس لینے کا کہا۔ فرانس نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسرائیل وزیر اعظم پرواضع کیا کہ امریکی صدر کا یک طرفہ فیصلہ سے خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے۔ سعودی عرب نے اعلان کیا کہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم کے القدس کے معاملے پر بلائے گئے غیر معمولی اجلاس کا مشترکا اعلامیہ میں امریکا فیصلہ مسترد کیا۔اقوام متحدہ سے تنازع حل کرنے کا مطالبہ کیا۔امریکی فیصلہ عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی کھلی خلاف درزی ہے۔امریکا فیصلہ خطے میں جارحیت کوہوا دے گا۔دو ریاستی مسئلے کے حل کی کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سلامتی کونسل اپنا کرادرار ادا کرے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ارکان نے کے اجلاس میں بھی امریکی فیصلہ پر بحث ہوئی اور اسے نا منظور کیا گیا۔ مگر امریکا نے اسے اپنا ویٹو پاور استعمال کر غیر موثر کر دیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اس میں اقوام متحدہ نے بیت ا لمقدس کو اسرائیل دارالحکومت بنانے کا امریکی اعلان مسترد کر دیا۔یروشلم کی حیثیت پر قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی گئی۔قرارداد کے حق میں ١٢٨ ووٹ پڑے۔٣٥ ملک اس اجلاس میں غیر حاضر تھے۔
صرف ٩ ملکوں نے امریکا کا ساتھ دیا۔کئی ملکوں نے کے نمائندوں نے یروشلم کے بارے میں امریکی صدر کے فیصلے پر اپنے اپنے ملکوں کا نقطہ نظر پیش کیا۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان فلسطینیوں کی جائز مطالبات کی حمایت کرتا ہے۔امریکا فیصلہ عالمی قوانین کے خلاف ہے۔فلسطینیوں کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ادھر امریکا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ القدس کو اسرائیلی دارالخلافہ بنائیں گے۔اسرائیل جس نے فلسطینیوں کے کے حق میں پاس شدہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کور د کرنے کی ڈھٹائی کی تاریخ رکھتا ہے۔ اس قرارداد کو بھی رد کر دیا اوراس کے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کو جھوٹ کا گھر کہا۔امریکی سفیر اجلاس سے پہلے ملکوں کر دھمکیاں دیتا رہا اور کہا جس ملک نے بھی امریکا کے خلاف ووٹ دیا اس کی امداد بند کر دیں گے۔امریکا قوام متحدہ کو سب سے زیادہ فنڈ دیتا ہے۔امریکی گیڈر بھبکیوں کے جواب میں طیب اردگان نے کہا کہ امریکا ہمیں چھکا نہیںسکتانہ ہی ڈالر کے ذریعے خرید سکتا ہے۔ڈالرکے زور پر جمہوریت کا دعویدار امریکا، ممالک کی خواہشات خریدنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس دفعہ دنیا ٹرمپ کو ضرو سبق سکھائے گی۔ صاحبو!پاکستان پر اس وقت مشکل اور نازک دور سے گزر رہا ہے۔
بھارت امریکا نے پاکستان کے خلاف دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں افغانستان میں بھارت کی حامی اور پاکستان کی مخالف قوم پرست حکومت قابض امریکا نے بنائی ہوئی ہے۔ بھارت نے کسی حد تک ایران کو بھی پاکستان مخالف بنایا ہوا ہے۔سعودی عرب جو ہمیشہ سے پاکستان کی مدد کرتارہتا ہے ہے،یمن کے معاملہ میں پاکستان سے خفا ہے۔خلیج کے ممالک کو بھی بھارت نے اپنی مٹھی میں لے لیے ہے۔اُدھر گریٹ گیم کے تحت اسرائیل، بھارت اور امریکا پاکستان کے اسلامی تشخص اور ایٹمی طاقت ہونے کو کسی صورت برداشت کنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت مشرقی اور افغانستان مغربی سرحدوں پرروزانہ کی بنیاد پر چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں نواز شریف بے عقلی کر کے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیوں کو یک جان ہو کر دشمنوں کو پیغام دینا چاہیے کہ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں۔اس لے علاوہ کوئی بھی چارہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان او اسلامی دنیا کے ٩٠ فی صد عوام امریکا کے خلاف ہیں۔ امریکا کے یروشلم بارے غلط اعلان سے مسلم حکمرانوں نے بھی امریکا کے خلاف فیصلہ دے دیاہے۔ حکومت ِپاکستان اس کو موقعہ کو اپنی بہترین سفارت کاری سے اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اللہ نے تو ٹرمپ کی وجہ سے پاکستان کی دوست نما دشمن ، امریکا کو شرمندگی کا سامنا کرنے پرمجبور کر ہی دیا ہے۔