تحریر : سلیم سرمد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے دو بڑے مذہبی مراکز (سعودیہ عرب اور روم’ ویٹی کن) کا دورہ کیا۔ امریکی صدر کے اس دورے کے متعلق ایک کیتھولک کرسچن کا مختصر ساتبصرہ نظروں کے سامنے سے گزرا۔ جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے دو بڑے اور اہم مذہبی مراکز کا دورہ کیا۔ پہلے مرکز میں ہتھیاروں کی ڈیل کے ساتھ ساتھ چند مسلم ممالک کے خلاف عسکری محاز قائم کرنے ‘ عدم برداشت اور جارحیت کی دھمکی دی گئی جبکہ دوسرے بڑے مذہبی مرکز میں سائنس و ٹیکنالوجی’ موسمی تبدیلیوں اور امن و استحکام کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔
2016ء اوبامہ کی مدتِ صدارت کے خاتمے کی ساتھ ہی امریکہ میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں ۔ڈیموکریٹک کی صدارتی امیداوار ہیلری کلنٹن کے مدِ مقابل ریپبلک پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے ۔دونوں پارٹیوں کے اپنے اپنے انتخابی منشور تھے ۔دونوں امیدواروں نے معاشی و سیاسی اور سلامتی کے حوالے سے کئی طرح کی اصطلاحات لانے کی باتیں کی تھیں ۔مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی نا صرف اصطلاحات منفرد تھیں بلکہ الیکشن کمپئین کے حوالے سے ان کا تشہیری اندازبھی کچھ عجب بلکہ متنازع ہی تھا۔اپنے غیر سیاسی ‘متعصبانہ اور غیر زمادارانہ بیانات کی وجہ سے وہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا خصوصاً ہمسایہ ممالک اور مسلم ممالک کے لیے دردِ سر کی صورت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ انہوں نے جس طرح اپنے بیانات میں کہا تھاکہ وہ صدر منتخب ہوتے ہی امریکہ کی داخلی سیکیورٹی کے لیے مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دیں گے اور امریکہ کی داخلی و خارجی سیکیورٹی کیلئے یہ اقدامات انتہائی ناگزیر ہیں۔یعنی ٹرمپ دنیا میںخصوصاً یورپ اور امریکہ میں ہوئی تمام دہشت گردی اور انتہا پسندی کاذمہ دارمسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو ٹھہراتے رہے۔اور صدارتی الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی ٹرمپ نے عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھانے کی سعی بھی کی مگر امریکی عدالتِ عالیہ نے ان کے اقدامات کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے معطل کر دیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات امریکی ریاست اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم امریکی باشندوں کے لیے پریشانی کا باعث بنیں گے’ معاشرے میںعدم استحکام اور عدم برداشت جیسے رویے زور پکڑیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی وجہ بھی ان کے متنازع بیانات اور متنازع پالیسیاں ہی تھیں۔در اصل وہ میڈیاکو استعمال کرنے کا فن بخوبی جانتے تھے اور انہوں نے اپنی تشہیری مہم کے لیے میڈیاکا بھر پور استعمال کیا۔کسی مقصد میں کامیابی کے حصول کیلئے ضروری نہیں کہ ہر شخص پازیٹو تھنک رکھتا ہوکچھ گھاگ لوگ نیگییٹویٹی پھیلا کر اور اپنے مخصوص ہربوں کا استعمال کر کے بھی اپنا نام اور مقام دونوں بنا لیتے ہیں اور ٹرمپ نے بھی ویسا ہی کیا ۔بطور امیدوار اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے خوب سٹیٹ منٹ کی ‘ اور جارحانہ انداز میں اپنی تشہیرمہم چلائی بلکہ تشہیر کرائی اپنی۔ جس کی وجہ سے ٹرمپ کا نام پوری دنیا میں سنا جانے لگا۔گو کہ اس ساری صورتحال کے باوجود سیاسی تجزیہ نگار ڈونلڈٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کی فتح کے امکانات روشن قرار دے رہے تھے مگر مجھے پتہ نہیں ایسا کیوں لگتا تھا کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات جیت جائیں گے ‘ اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔عظیم امریکہ کی صدارت ٹرمپ کے حصے ہی میں آئی۔
امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے اورمسلم ممالک کو دہشت گردی کا منبع قراردینے والے ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد باضابطہ طور پراپنا پہلا غیر ملکی دورہ مسلمان ملک سعودی عرب کا کیا۔اور اس طمطراق سے آئے کہ ان کے استقبال کیلئے پوری مسلم دنیا کے حکمران ہاتھ جوڑے اور آنکھیں بچھائے کھڑے تھے۔یار لوگ اسے سعودی حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی قرار دے رہے ہیں کہ سعودی حکومت نے اپنی کامیاب سفارت کاری کے ذریعے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کو اسلامی سرزمین اور سعودیہ عرب میں قدم رنجہ فرمانے پر مجبور کر دیا۔حالانکہ کامیاب سفارتکاری تو امریکہ نے کی جس نے مسلمانوں کے بارے میں اپنے تعصب پسندانہ رویے اوراور اینٹی مسلم نظریے کے باوجود وسیع وژن میں سوچتے ہوئے اپنے قومی اور معاشی و سیاسی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک ایسے اسلامی ملک کا دورہ کیا جس کی چھتری تلے چند ایک اسلامی ممالک کو چھوڑ کر پوری مسلم امہ اکٹھی تھی اور لبیک یا سعود اور لبیک یا امریکہ کا نعرہ لگا رہی تھی۔سعودی عرب اور امریکا کا اتحاد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔سعودی امریکہ قرابت داری میں جو تھوڑی بہت سرد مہری اوبامہ دورِ حکومت میں دیکھنے میں آئی تھی وہ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حالیہ دنوں میںگرمجوشی میں بدل گئی چکی ہے۔
امریکہ کی اولین پالیسیوں میں سے ترجیحی پالیسی داخلی و خارجی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اکانومی اور دنیا میں انتشار و انارکی پھیلا کر اپنا عالمی اثرو رسوخ قائم رکھنا ہوتا ہے۔اور ٹرمپ کا حالیہ دورہء سعودی عرب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جبکہ سعودیہ عرب امریکی تائید اور حمایت کی صورت میں مسلم امہ کو اپنے زیرِ نگیں رکھنے اور اپنے حریف مسلم ممالک کو مرعوب کرنے کی فکر میں مستغرق نظر آتا ہے۔
اس دورے کے ثمرات بھی دونوں ممالک نے اپنے تئیں خوب سمیٹے۔ دونوں ممالک نے 350بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے کیے۔واضح رہے کہ 350بلین ڈالر کے یہ ہتھیار امریکہ بیچے گا اور سعودیہ عرب خریدے گا۔ہتھیاروں کی یہ ڈیل امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل ہے ۔گو کہ ہر ریاست کو اپنے دفاع کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے مگر سعودیہ عرب یہ ہتھیار کس کافر ملک کے خلاف استعمال کرے اس کا کچھ پتہ نہیں۔۔۔ اور یوں سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی ممالک کی اجتماعی غلامی قبول کرنے اور ہتھیاروں کی اس بہت بڑی ڈیل کے ساتھ ٹرمپ اپنی ملکی معیشت کو سپورٹ دینے میں کامیاب ٹھہرے۔ اب ذرا سوچئے کہ کامیاب سفارتی پالیسیاں کس ملک کی ہیں’ سعودیہ عرب کی امریکہ کی؟ بات صرف دو ممالک یا دو بلاک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی و استحکام کے حوالے سے ہونی والی میٹنگز ‘ٹیبل ٹاک یا ڈیلز تک محدود نہیں ہوتی اس میں سربراہانِ مملکت کی ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی محبت کے مظاہرے بھی اکثر دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ گرم و سرد شالوں اور” خطوط ”کا تبادلہ بھی مختلف سربراہانِ مملکت کی طرف سے کیا جاتا ہے مگر جو نوازشات آلِ سعود نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کیں اس کی نظیرآج تک نہیں ملی۔شاندار استقبال ، پر تکلف ضیافت’ عالمِ اسلام سے خطاب کا موقع دینے کے علاوہ1.2بلین ڈالر کے تحائف بھی ٹرمپ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔
جن میں سعودی بادشاہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا ایک بیش قیمت ہیرا ۔مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں اور ہیروں سے جڑی ہوئی قیمتی اشیاء جن میں 25کلو گرام کی سونے کی بنی ایک تلوار جس کی مالیت 200ملین ڈالر بتائی جا رہی ہے۔سونے اور ہیروں سے جڑی 200ملین ڈالر کی گھڑیاں۔سونے کی تاروں سے بنے ہوئے انتہائی عالیشان ملبوسات ۔سونے ہیروں اور جواہرات سے جڑا ایک چھوٹا سا مجسمہء آزادی اور دنیا کی سب سے بڑی125میٹر لمبی شاہانہ طرز کی یاٹ بھی شامل ہے جس میں 20عدد رائل سوٹ اور شاہانہ طرز کے 80کمرے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا کو ایوانکا فنڈ کے لیے 100ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی پیش کی گئی۔اگر امریکہ نے اپنی تاریخ کی سب بڑی ڈیل (ہتھیاروں کی) سعودیہ عرب کے ساتھ کی تو سعودی بادشاہ نے بھی پہلی بار کسی امریکی صدر کو اپنی طرف سے بیش بہا تحائف دے کر احسان چکتا کر دیا۔
ہاں عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے الے دانشوروں سے سنا ہے کہ ریاض کی اہم شاہراہوں میں سے ایک اہم شاہراہ بھی ”ٹرمپ کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ اب امریکہ سعود ی اتحادکے حامی مجھے انیٹی سعود یا اینٹی امریکہ تصور کرنے لگ جائیں گے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ گو کہ ان دونوں ممالک کے سربراہان نے ہمارے وزیرِاعظم( جسے دو گھنٹے تک اس کا خوشامدی ٹولہ ہوائی سفر کے دوران تقریر کے حوالے سے بریف کرتا رہا) کو وہ عزت نہیں دی جو کہ ایک خومختار اورایٹمی اسلامی ریاست کے سربراہ کا حق تھا ۔پھر بھی مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مزاحم عزائم رکھنے والے ٹرمپ جیسے متنازع شخص نے مسلم دنیا کی اہمیت و حیثیت کو تسلیم کیا اپنی کامیاب سیاسی و سفارتی پالیسیوں کی بدولت ان کے ساتھ دفاعی معاہدے کر کے عظیم امریکہ کو معاشی استحکام بخشا۔مجھے تو اس بات کا دکھ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کہ جتنی عزت افزائی سعودیہ عرب میں ہوئی اتنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئی حالانکہ ٹرمپ نے اسرائیل پہنچتے ہی اسرائیل کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت کا اظہار بھی ببانگِ دہل کیا۔مگر پھر بھی اسے ایک سادہ سی میز کے گرد عام سی کرسیوں پر بٹھایا گیا۔کیا یہ وہی جارح ‘متعصب’ متکبر’ غیر سنجیدہ سیاستان ‘مسلمانوں کو دہشت گرد گرداننے والااور اپنے ہی ملک میں غیر مقبول ٹرمپ تھا جس کی آمد پر سعودی سلطنت نے پوری مسلم دنیا کواکٹھا کیا سلامی دلائی ۔سچ تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ”سب سے پہلے امریکہ ” کے نعرے کے تحت اپنی معاشی اور سیاسی ضرورتوں کے تحت پلٹا کھایااور سفارتی پالیسیوں کا ملکی مفاد میں بروقت استعمال کیا اور بجائے امریکی خزانے سے کچھ دینے کے ایک بہت بڑا معاشی پیکج اور بیش بہا تحائف لے اڑے۔ویل ڈن !مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ۔