تحریر : عثمان غنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں اور غیر قانونی پناہ گزنیوں کو امریکہ کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیکر اپنی عوام کو اس قدر متاثر کیا کہ اپوزیشن پاڑٹی ڈینو کریٹ کے چھکے چھوٹ گئے۔
موصوف نے آتے ہی سب سے پہلے اپنی صدارتی طاقت کا بے “دریغ “استعمال کرتے ہوے سو دن کے اندر ٩٠ حکم ناموں پر دستخط کر دیے ـاگرچہ ان میں سے کچھ پر امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کرکے عملدرآمد روک دیا۔ان میں سے ایک غیر قانونی پناہ گزینوں کو فوری طور پر امریکہ چھوڑ جانے کے حوالے سے تھا ـجس کا مظاہرہ قارئین نے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھا ہو گا،جنہوں نے نہیں دیکھا تو سوشل میڈیاکا زمانہ ہے وہ یو ٹیوب پرجا کر ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔اس حوالے سے امریکہ کی سنٹرل لفٹ نے احتجاج بھی کیا اور دوسرے ممالک کی حکومتوں سیے کافی ردعمل آیا ـمگر صدر ٹرمپ نے آؤ دیکھا نہ ناو بلکہ ایک اور صدارتی حکم نامے پر بھی دستخط کر دیے ـجس میں نارتھ آمریکہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ ،جو امریکہ ،میکسیکو،اور کینڈا کے درمیان تجارتی معاہدوں کے حوالے سے تھا،کو منسوخ کر دیا ۔جس پر میکسیکو کے صدر کی طرف سے شدید احتجاج بھی آیا مگر ٹرمپ صاحب کہاں سننے والے تھے جو پہلی بار صدر منتخب ہوے اور وہ بھی ایک سپر پاور کے۔اس پر ٹرمپ کا کہنا تھا اس معادے کی منسوخی کے باوجود وہ کینڈا اور میکسیکو کے سربراہان سے بات چیت کرکے اس تجارتی معاہدے کو نئے سرے سے ترتیب دیں گے ۔یاد رہے ٣ ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ١٩٩٣ میں طے پایا تھا۔
ان امریکی صدارتی حکم ناموں سے جہاں انٹرنیشنل دینا میں ہل چل مچ گئی ،وہیں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور تاجروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور اس کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے ردعمل بھی دیکھنے کو ملا۔جناب ٹرمپ کے ایک اور بیان نے میکسیکو کے صدر این ریک کو آگ بگولا کر دیا جو انہوں نے میکسیکو کی سرحد پر باڑ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ـتاکہ میکسیکو کی غیر قانونی تارکین وطن کی امریکہ آمد کو روکا جا سکے ۔میکسیکو اور تیسری دینا کے غیر قانونی تارکین وطن امریکہ میں معمولی سیے معمولی نوکریاں کر کے اپنے ملکوں کی معشیت میں اہم کردار ادا کرتے رہیں ـمگر امریکی صدر کا اصرار تھا کہ اب امریکی عوام کو ان ملازمتوں پر حق ہے ۔اگرچہ ٹرمپ کے سپورٹرز نے شاید اونچی ملازمتوں کے خواب دیکھے ہوے تھے ـمگر حقیقتیں عموماً کافی تلخ ہوتی ہیںـصحت کے حوالے سے سابقہ امریکی صدر اوباما کابل منسوخ کر کے اور نیا ٹیکس متعارف کرا کے ٹرمپ صاحب نے اپنے ووٹروں کو بھی ششوپنچ میں ڈال دیا۔
یاد رہے ایک اور بل بھی ٹرمپ کے ہتھے چڑھا تھا اور وہ تھا ٹرانس پیسیفک پارٹرنرشپ جس میں امریکہ بہادر کے علاوہ گیارہ ممالک شامل تھے ـمسٹر ٹرمپ نے نے صدارتی حکم نامے کے تحت خود کو اس بل سے الگ کر دیا ـوجہ شاید ملایشیا اور ویت نام کے تارکین وطن تھے جو امریکی عوام کی نوکریوں پرڈاکہ ڈال رہے تھے ۔ٹرمپ کا اصرار تھا کہ اب امریکہ ان گیارہ ممالک سے الگ الگ ڈیل کرے گا تاکہ وہ اس پارٹنرشپ کے سنگل ایجنڈے پر پابند نہ رہے۔آ اپوزیشن نے امریکی صدر پر الزام عائد کیا کہ وہ روسی صدر ولادی میر پپوتن کے ہتھے چڑھے ہوے ہیں۔
یہ تو اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون کس کو الٹی پٹایاں پڑھا رہا ہے ـیہ تو ہو گئیں ٹرمپ کے صدارتی حکم ناموں کی جھلکیاں ۔اب آتے ہیں آن کے موجودہ سعودی عرب کے دورے کی طرف ۔اسلامی دینا میں عام تاثر یہ ہے کہ جیسے ٹرمپ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں تو جناب والا اگر ان کی مسلمانوں کے خلاف نفرت ہوتی تو وہ بحیثیت صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیوں کرتے ؟آپ لوگ بھی اتنے سادہ نہیں ہیں ،اخبارات اور کرنٹ نیوز سے خود کو آگاہ رکھتے ہیں تو جناب جب بات ایک سو دس ا ارب ڈالرز کی ہو تو نفرت کیسی ؟ سب چلتا ہے ،باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ۔ہو سکتا ہے انے والے چند سالوں میں عرب دینا کی امریکہ سے اسلحہ کی خریداری تین سو ارب ڈالرز تک پنچ جاے ـامریکہ کی عرب ممالک سے تجارت پر ایران کو شدید تحفظات ہیں ۔دیکھتے ہیںکہ آنے والے دنوں میں عالمی سیاست پر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔