قومی تقاضہ تو یہ ہے کہ امریکی خبطی صدر ڈونلڈٹرمپ کے پاکستان مخالف بیا ن پر مُلک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک ہو جا ئیں ،ملی یکجہتی اور اتحاد کا بھر پورمظاہر ہ کرتے ہوئے، امریکی غیر سنجیدہ موالی خبطی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی پر ایسا جواب دیں کہ اِسے اِس کی اصل اوقات کا لگ پتہ جائے، وقت آگیاہے کہ اَب پاکستانی سیاستدان کھل کر پاگل امریکی صدر کو بتا دیں کہ ہم جُدا جُدا یا بکھرے ہوئے جیسے نظر آتے ہیں۔ ہم ایسے ہرگز نہیں ہیں۔ ہمارے اندرونی خانہ سیاسی اختلافات تو بے شک ہو سکتے ہیں۔ مگر مُلکی اور قومی مفادات کے خلاف جہاں کہیں سے جو بھی کو ئی بات کہے گا، یا ہماری خود مختاری پر ہرزہ سرا ئی کرے گا،توہم ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں مکا بن کر کسی کا منہ توڑنے کے لئے کافی ہیں۔ جیسا کہ پچھلے دِنوں ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے امریکی صدر کی حالیہ پاکستان خلاف بیان پر عملی مظاہرہ کردکھایا ہے جو کہ اچھی بات ہے ۔
آج اِس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پچھلے کئی برسوں کے دوران پاک امریکا تعلقات میں کئی مواقع پرنشیب وفراز آئے، دونوں ممالک کو اپنے مفادات کے لئے تعلقات میں اَن گنت بے وفائیوں اور پابندیوں کا بھی سامنارہا اورتعلقات میں تلخیاں بھی آتیں رہیں۔ مگر پھر بھی امریکیوں سمیت دنیا کو پتہ ہے کہ جنوبی ایشیا سے وابستہ امریکی مفادات کے لئے پاکستان تو ہمیشہ ہی سے امریکا کے لئے ایک اہم مُلک رہاہے،جبکہ نائن الیون کے بعد تو پاکستان کی مدد کے بغیر امریکیوں کو اپنی زندگی گزارنا مشکل لگتا ہے ،سب جا نتے ہیں۔ اِس عرصے میں دہشت گردی کے خلاف امریکی مفاداتی جنگ میں فرنٹ مین کا اہم رول ادا کرتے پاکستان کے امریکا بہت قریب رہاہے، ابھی تک کولیشن پارٹنر کی حیثیت سے چندامریکی ڈالرزکے عوض امریکی جنگ کا حصہ بننے والے پاکستان نے اپنی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے ، یقیناپاکستان کا ہی یہ ظرفِ عظیم ہے کہ اِس نے اپنا جانی اور مالی نقصان کرکے امریکا سے اپنی اچھی دوستی نبھائی ہے۔
اِس سے انکار نہیں کہ اِب تک خطے میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن کر ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے اپنے 75ہزار سے زائدشہریوںمعصوم بچوں، جونواں، عورتوں مردوں اور پاک افواج کے جوانوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور16482ارب ڈالرز کا اپنانقصان لگ کیا ہے،اَب خدا جانے امریکا سے دوستی کے صلے میں چند امریکی ڈالرز کے بدلے بار بار کچھ نہ کرنے کے طعنے اور ڈومور کے بے جا مطالبوں کے بدلے میں پاکستانیوں کی قربانیوں کا یہ سلسلہ کب تک چلارہے گا؟اور کہاں جا کر رکے گا؟
اِس المناک تناظر میں اَب حقیقی معنوں میں پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی ٹول نہیں ہے؟ اور نہ ہی پاکستان امریکی کالونی ہے۔ جب امریکیوں کا جی چاہتاہے، اِسے بطور ٹول پاکستان کو استعمال کرلیتے ہیں۔ اور اِس پر اِسے ڈومور کی دھونس دھمکیاں ایسے دیتے ہیں۔ جیسے کہ پاکستان امریکی کالونی ہے۔
پاکستان کی ماضی کے حکومتوں اور حکمرانوں کے درمیان ظاہر اور باطن پاک امریکا جیسے بھی تعلقات رہے ہوں۔ مگر اَب پاکستان کی نئی حکومت اور حکمران کے ساتھ امریکا کو اپنے تعلقات استوار رکھنے کے لئے لازم ہے کہ امریکاکو حق و سچ کی بنیادوں پر آگے چلنا ہوگا تووزیراعظم عمران خان اور موجودہ حکومت کے ساتھ پاک امریکا تعلقات بہتر طور پر قا ئم رہ سکتے ہیں، ورنہ ؟ امریکیوں نے پاک امریکا تعلقات میں بہتر ی کے لئے ماضی کی طرح اپنی ڈرا دھمکا نے والی روش برقرار رکھی تو پھر دونوں ممالک کو ایک ساتھ چلنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہوجائے گا ۔چوں کہ وزیراعظم عمران خان حق و سچ کا علمبردار ہیں ، اِسی عَلم حق اور سچ کو تھامے مُلک کو آگے کے جانے کا عزمِ مصمم کئے ہوئے ہیں۔ اَب اِس لئے امریکیوں کو بھی چاہئے کہ یہ بھی پاک امریکا تعلقات کو خوشگوار ماحول میں آگے بڑھانے کے لئے پاکستا ن مخالف ہرزہ سرا ئی سے اجتناب برتیں گے، تو امریکا کا پاکستان سے اور پاکستان کا امریکا سے بہتر طور پر کام نکل سکتاہے ورنہ ؟ اَب ویسا نہیں چلے گا ؟جیسا چاہتا تھاامریکا کئی دہائیوں سے پاکستان سے کرتاآیاہے۔
آج پاکستان کی جانب سے امریکا کوجس قسم کا کڑاکے کا جواب ملاہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ پاکستان مخالف بیان کے بعد یہ اندازہ نہیں تھا کہ پاک امریکا تعلقات میں اتنی سردمہری اور تلخی پیدا ہوکر حالات اِس نہج تک بھی پہنچ جا ئیں گے ۔ دونوں ممالک کی جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا جائے گا،اور دنیا کو یہ گمان ہو نے لگے گا کہ امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے ” حریف “ مُلک بن گئے ہیںحالانکہ ایسا نہیںہے ابھی کچھ نہیں بگڑاہے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لئے ہمیشہ سے لچک کے بہت سے مواقع موجود رہے ہیں۔ابھی دونوں ممالک لچک کا مظاہر ہ ہاتھ سے نہیںجانے دیںگے۔اِس سے انکار نہیںکہ امریکا نے پاکستان اور خطے سے اپنے مفادات کے حصول کے خاطر پاکستان کو ہمیشہ استعمال کیا ہے اور پاکستان امریکی دوستی کی پاداش میں ہر بار دوقدم آگے بڑھ کر اپنی ہر قسم کی قربانیاں پیش کرتا رہاہے، اِس کے باوجود بھی امریکیوں کا ہر بار پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کیا یہ ظاہر نہیں کرتاہے کہ امریکا پاکستان کو کولیشن پارٹنر بنا کر ہمیشہ چند ڈالرز کے عوض پاکستانیوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مفادات حاصل کرتارہاہے ۔آج آخر کیا وجہ ہے؟ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ایسی ہرزہ سرائی کی کہ پاکستانیوں کو منہ توڑ جواب دینا پڑاہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور امریکا سے روابط میں کہیں نہ کہیں جھول ہے یا کوئی دانستہ طور پر پاک امریکا تعلقات میں ایسے حالات پیدا کرناچاہ رہاہے سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان اور خارجہ پالیسی کے وزیرشاہ محمود قریشی پاکستان میں تعینات امریکی سفارتی عملے کو پاک امریکا تعلقات کے معاملے میںبہتری سے متعلق اپنا پروگرام دیںکہ یہ امریکا سے کیا چاہتے ہیں، چوں کہ یہ امریکی سفارتی عملہ ہے جو پاک امریکا تعلقات میں اہم کردار ادا کرسکتاہے اِس لئے بھی کہ(مقبول ارشد کی کتاب” امریکی رپورٹیں“ سے اقتباس ہے کہ ” پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ایک تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میںتعینات امریکی سفارتکار گاہے بگاہے سیاسی و مذہبی جماعتوںکے رہنماو ¿ں ، وزراء، بیوروکریٹس اور حکومتی عمائدین سے ملاقاتوں کے بعد اور مُلکی اور عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے تناظر میں روزانہ پاکستان کے حالات اور واقعات کے بارے میں رپورٹیں تیارکرکے واشنگٹن بھجواتے ہٰنجہاں اِن رپورٹوں کا جائزہ لے کر پاکستان کے بارے میں امریکی حکومت اپنی پالیساں وضع کرتی ہیں“۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com