تحریر : شیخ خالد زاہد دنیا کو اسوقت سب سے زیادہ ضرورت مفاہمتی اور مصالحتی پالیسیوں کی ہے۔ دنیا کو پر امن رکھنے کی تدبیریں اور پالیسیاں اگر دنیا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک شروع کریں تو ان کے نتائج بروقت اور بہت تیزی سے رونما ہونا شروع ہوجائنگے۔ اس کے برعکس اگر امن کی خواہش صرف اور صرف تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کرینگے تو یہ کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہوگا۔ آج دنیا کا ہر ملک بلا تفریق ترقی دہشت گردوں اور انکی دہشت گردی کی صداؤں سے گونج رہا ہے کہیں بم دھماکے ہورہے ہیں تو کہیں اندھا دھند گولیاں کی گھن گرج ہے کہیں تو خنجروں اور ڈنڈوں سے بھی موت تقسیم کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا جن تمام حدیں عبور کر چکا ہے اور دنیا کو دہلاتا جا رہا ہے۔ دین و مذہب سے آزاد یہ جن کسی طرح قابو میں آنے کیلئے تیار نہیں ہے اور یہ جگہیں بدل بدل کر اپنی کاروائیاں کر رہا ہے۔
دہشت گردی جوں جوں عالمی مسلئہ بنتی جا رہی ہے ویسے ویسے ممالک اپنی اپنی سرحدوں تک محدود ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں اور ایسی ہی پالیسیاں مرتب دیتے محسوس کئے جا رہے ہیں۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اب اتنی آسان بات نہیں ہے اور نا ہی ایسا کرنے کا کوئی سوچ سکتا ہے، اسمیں جہاں معیشت نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ذرائع ڈھونڈنا ایک بہت بڑا اضافی مسلئہ ہے۔ کسی بھی ملک پر قبضہ کرنے کا سوچ تو سکتا ہے مگر قبضہ کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا، ڈرا دھمکا سکتا ہے مگر ختم نہیں کرسکتا۔
آمریکہ کے نئے صدر ڈولڈ ٹرمپ جنہیں انکے صدارتی امیدوار سے لے کر صدر بننے تک خوب تنقید نا نشانہ بنایا گیا مگر انکا عزم اور حوصلہ قابلِ دید ہی نہیں قابلِ ستائش بھی رہا۔ اب وہ امریکہ کے صدر ہیں اور اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال بھی بہت خوب انداز میں کر رہے ہیں۔
ڈولڈ ٹرمپ کے صدر بننے میں جہاں انکی اہلیہ اور انکی صاحبزادی نے بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے وہیں دوسری طرف ڈولڈ ٹرمپ کی سب سے پہلے آمریکہ کا نعرہ بھی بہت کام آیا۔ بریکسٹ بھی کچھ ایسے ہی عمل کا عملی نمونہ بن کا سامنے آنے والا ہے۔ اب اس بات کا اندازہ لگانا کہ برطانوی پالیسی ٹرمپ نے اپنائی یا ٹرمپ کی پالیسی پر برطانیہ نے پہلے سے قدم اٹھا لیا۔ اگر ہمیں یاد ہو تو 2011 میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ وہ نعرہ تھا اسوقت بہت ضروری تھا اور آج برطانیہ اور امریکہ ایک طویل سفر طے کر کے وہاں پہنچے ہیں جہاں پاکستان 2011 میں تھا۔ لیکن پاکستان کی بربادی ہی ان ممالک کی سوچ میں تبدیلی لانے کی اہم وجہ بنی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دوروں پر نظر ڈالیں، جن میں صدرڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب سے فلسطین، اسرائیل اور پھر ویٹی کن سٹی گئے۔ اس دورے کی اہم ترین بات جو بظاہر واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ صدر صاحب نے مسلمانوں، یہودیوں اور عسائیوں کی مقدس سرزمینوں اور مرکزی عبادتگاہوں کا دورہ ایک ساتھ کیا ہے اور یقیناً مذہبی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی ہونگی۔ دنیا کیلئے منفی مزاج اور سوچ رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ اب اپنی سیاسی بصیرت کو واضح کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے دنیا کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیہ کرنے کی کوشش کرتے محسوس کئے جا رہے ہیں جس سے دنیا میں امن و امان کی فضاء قائم ہوسکے اور مذہبی تناؤ میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکے۔
جی ہاں ! اسے دیوانے کا خواب بھی کہا جاسکتا ہے اور قدرت کی، کی جانی والی دنیا پر مہربانیوں میں سے ایک مہربانی بھی۔اگر ساری دنیا کہ حکمرانوں کو یہ بات سمجھ آجائے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے کچھ نہیں ہونے والا بلکہ ایک دوسرے کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا جائے تو مسائل پر قابو پانا زیادہ آسان اور ممکن ہوسکے گا۔ یا دوسروں کو کسی بھی نوعیت کا نقصان پہنچانے سے اس کے اثرات انکے اپنے ملک کے لوگوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔