تحریر : پروفیسر مظہر محوِ حیرت ہوں کہ آخر مسلم اُمہ نے یہ کون سا رُخ اختیار کر لیا ہے اب عالمِ اسلام کو مشرف بہ امریکہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ پہلے تو کبھی کبھار اسلامی سربراہ کانفرنسز منعقد کی جاتی تھیں ( یہ الگ بات ہے کہ مسلم اُمّہ کو اِن کانفرنسز کا کبھی بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ نشستن ، گفتن اور برخاستن تک ہی محدود رہیں ) لیکن اب کی بار تو انتہا ہو گئی اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ اسلامی ممالک کو وہ شخص خطاب کر رہا تھا جس کے بارے میں مسلم الثبوت ہے کہ وہ عالمِ اسلام کا بدترین دشمن ہے جس نے سات اسلامی ممالک کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی ، جس نے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی اور مسلمانوں کے خلاف اپنی زہر فشانی کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا لیکن اگلے ہی روز پھر عالمِ اسلام کے خلاف آگ اگلنے لگا اور ویب سائٹ سے ہٹائی گئی ”پوسٹ” دوبارہ لگا دی ۔ جس نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے کہا ”اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دوں گا ” ۔ جس نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف انتہائی متنازع اور توہین آمیز بیانات دیئے ۔ جس کے بارے میں امریکی رکنِ پارلیمنٹ مارک کوکن نے کہا کہ پابندی کے شکار تمام سارک ممالک میں ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ ہی مذہب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تُرکی ، مصر اور سعودی عرب کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں اِس لیے یہ ممالک اِس پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے ۔ امریکی پروفیسر ایلن نے کہا کہ ٹرمپ نے امریکی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پناہ گزینوں اور شہری ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگا کے غیرقانونی کام کیا ہے ۔ ہیوسٹن کے ایک مظاہرے میں ہزاروں افراد نے اُسے بدترین ”نسل پرست” قرار دیا۔
حیرت ہے ککہ جس شخص کو پچاس فیصد سے زائد امریکی بھی ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اُس کے مواخذے کا مطالبہ کر رہے ہیں ، وہی شخص اسلامی ممالک سربراہان سے خطاب کر رہا تھا اور سربراہان تالیاں پیٹ رہے تھے لیکن تالیاں کِس بات پر ؟۔ کیا اُس کی ایران کے خلاف یاوہ گوئی پر یا ایران کو تنہا کر دینے کے حکم پر ؟۔ یا پھر اِس بات پر کہ وہ کچھ مسلم ممالک کے خلاف مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کا اپنے آپ کو اسلامی دنیا کے قریب تر لانا بِلاسبب نہیں ۔ امریکہ خوب جانتا ہے کہ چین اور روس اسلامی ممالک کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں جو دنیا کی واحد سپر پاور کو قبول نہیں ۔ دوسرا امریکہ میں اسلحہ ساز فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں اِس لیے ڈونلڈ ٹرمپ سعود؛ عرب پہنچا اور وہاں ٢٥٠ ارب ڈالر کما کر لے گیا جس میں وہ ١١٠ ارب کا اسلحہ بھی شامل ہے جو مسلم ممالک کے خلاف استعمال ہونے جا رہا ہے ۔ جب سعودی فرمانروا نے یہ کہا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان واشنگٹن کے ساتھ ہیں تب اُنہیں ٹرمپ کی وہ تقریریں یاد کیوں نہیں رہیں جو وہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف کرتا رہا ۔ ویسے یہ سعودی فرمانروا کی بہت بڑی غلط فہمی ہے جو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمان واشنگٹن کے ساتھ ہیں ۔ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ زیادہ تر مسلمان امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔آج ٹرمپ کو دوستی ، امن اور محبت کا پیغام یہاد آ گیا لیکن یہ کیسا امن ہے جس میں ایک برادر اسلامی ملک کو تنہا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔
ہمارے وزیرِاعظم میاں نواز شریف بھی اِس امریکہ ، ارب اسلای کانفرنس میں تشریف لے گئے ۔ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی اِس کانفرنس میں موجود تھے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ میاں صاحب اِس کانفرنس میں گئے کیوں؟۔ اگر تو وہ دہشت گردی کے خلاف قائم کیے گئے عالمی اسلامی فورم میں شرکت کے لیے گئے تھے تو پھر اُنہیں خطاب کا موقع کیوں نہیں دیا گیا جبکہ یمن اور مصر جیسے ممالک کے سربراہان نے بھی خطاب کیا ۔ پاکستان عالمِ اسلام کی واحد ایک ایٹمی طاقت ہے اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر بھی ۔ ہم دہشت گردی کے خلاف اِس جنگ میں ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دے چکے اور ١٢٠ ارب سے زائد کا نقصان بھی اِس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا چکے لیکن اِس کانفرنس میں پاکستان کو مکمل طور پر پسِ پشت ڈالا گیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی سے متاثر ممالک میں بھارت سمیت کئی ممالک کے نام گنوائے لیکن اُس نے پاکستان کا نام تک لینا گوارا نہ کیا ۔ شنید ہے کہ میاں صاحب کانفرنس میں خطاب کرنے کے موڈ میں گئے تھے لیکن اُنہیں موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ یہ پاکستان کی توہین ہے اور انتہائی تکلیف دہ امر یہ کہ اِس توہین کا مرتکب برادر اسلامی ملک سعودی عرب ہوا ہے۔
جیسا کہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ امریکہ عرب اسلامی کانفرنس کا مقصددہشت گردی نہیں ، کچھ مسلم ممالک کے خلاف گھیرا تنگ کرنا تھا جس میں صفِ اول پر ایران نظر آتا ہے اور ایران ، سعودی عرب دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں تو کیا اِس ”اکٹھ” میں شامل ہو کر پاکستان ایران کی مخالفت کا متحمل ہو سکتا ہے ؟۔ ہمارے پڑوسی بھارت اور افغانستان ، پہلے ہی پاکستان کے شدید مخالف ہیں ۔ اب ایران سے دشمنی مول لے کر کیا ہم ہر طرف سے گھیرے میں نہیں آ جائیں گے ؟۔ برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ ہمارے ہمیشہ بہترین تعلقات رہے ہیں اور بھارت کے خلاف جنگوں میں بھی ایران نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ تو کیا ہم سعودی عرب کی حمایت میں ایران کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے ؟۔ یہ بجا کہ سعودی عرب میں ہمارے مقدس ترین مقامات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں جن کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کر دینا ہر مسلمان کا فرضِ اول لیکن یہ مقامات تو ایران کے لیے بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے کسی بھی دوسرے مسلمان کے لیے ۔ ہم اِن مقدس مقامات کے لیے تو جانیں قربان کر سکتے ہیں ، کسی برادر اسلامی ملک کے خلاف سعودی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے ہرگز نہیں ۔ پاکستان کی ہمیشہ یہی پالیسی رہی ہے کہ دونوں برادر اسلامی ممالک کو قریب تر لانے کی کوشش کی جائے لیکن کسی ایک کی حمایت نہ کی جائے ۔ اگر یہی ہماری پالیسی ہے تو پھر وزیرِ اعظم اِس کانفرنس میں جئے کیوں۔