تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید پاک امریکہ تعلقات کا ایک طویل دورانیہ ہے۔جو 1950سے آج تک 56 سالوں پر محیط گرم جوشی و سرد مہری کے ساتھ ساتھ جاری چلا آرہا ہے۔گو کہ پہلے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کی شہادت بھی پاک امریکہ تعلقات کا شاخسانہ ہی بتائی جاتی ہے۔ جب امریکہ نے روس کے خلاف استعمال کے لئے پاکستان کے ہوائی اڈے مانگے اور وزیر اعظم پاکستان نے ہوائی اڈے امریکہ کو دینے سے انکار کر دیاتھا۔تو اس کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو منظر سے ہٹوا دیا گیا۔اس شہادت کے بعد ہمارے تعلقات امریکہ سے خراب نہیں ہوئے بلکہ پاکستان پر بڑے سُتھرے انداز میں امریکہ نے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو مسلط کرا کے اپنے مقاصد تو حاصل کر لئے ۔مگر پاکستان کے لئے تباہی کا گڑھا بھی اس ڈکٹیٹر کے ہاتھوں کھدوا دیا ایک جانب پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہ ہونے دی گئی تو دوسری جانب ڈکٹیٹروں کی یکے بعد دیگرے آبیاری کی جاتی رہی۔یہ کوششیں شائد اوبامہ دور میں بھی کی گئیں ۔مگر ان کوششوں کو عوامی پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے کپتان کی انگلی اُٹھنے کی بجائے مڑ کر ناکارہ ہوگئی۔
امریکہ کے موجودہ منتخب صدر جو 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ان کے الیکشن مہم کے بیانات نے مسلم دنیا اور مسلمانوںکو ایک مخمصے میں مبتلا کر کے رکھ دیا تھا۔دوسری جانب ہندووں اور ہندوستان کے حق میں آنے والے بیانات نے تو ہر پاکستانی کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔مگر سیاست کو سمجھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات جیتنے کے لئے بعض اوقات اس طرح کے مصنوئی بیانات داغنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ان بیانات کا انتخابات لڑنے والے بعض امیدواروں کو خاصہ فائدہ بھی پہنچتا ہے،جیسا کہ ڈو نلڈ ٹرمپ کو بھی پہنچا ہے۔
برف پگھلنے کا عندیہ دنیا کو اُس وقت ملا جب وزیرِ اعظم پاکستان نے نو منتخب صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کوبدھ کی شام ٹیلیفون کر کے انہیں امریکی انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد کا پیغام دیا ۔امریکی صدر نے جواباََ ایک جانب وزیر اعظم کی تعریف کی اور انہیں حیرت انگیر شخصیت قرار دیا ،تو دوسری جانب یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان سے جلد ملاقات کی خوہش رکھتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی ذہین ترین لوگ ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسی پیشکش بھی کر ڈلی جس سے ہندوستانی سیاست کے ایوانوں میں تہلکہ مچ گیا ہے کہ”آپ کے تصفیہ طلب مسائل کا حل تلاش کرنے اور انہیں حل کرنے کی غرض سے آپ جو بھی کہیں گے میں وہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔میرے لیئے یہ اعزا کی بات ہوگی۔میں اسے ذاتی طور پر خود انجام دونگا” وزیر اعظم کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت پر امریکہ کے نو منتخب صدر نے کہا کہ ”وہ ایسے منفرد ملک کا دورہ کر کے مسرت محسوس کریں گے جو شاندار لوگوں کا شاندار ملک ہے۔
Democracy
انہوں نے وزیر اعظم سے یہ بھی کہا کہ مہربانی فرما کر میرا یہ خیر سگالی پیغام پاکستان کے عوام تک بھی پہنچا دیں”صدر ٹرمپ نے اگر اپنا وعدہ پورا کیا تو و ہ جمہوری حکومت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے صدر ہوں گے۔ان سے قبل جتنے بھی امریکی صدور نے پاکستان کے دورے کئے وہ تمام کے تمام ڈکٹیٹروں کے ادوار میں ہی ہوئے ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے سیانے کہہ رہے ہیں کہ ابھی ہمیں امریکہ سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاہئیں اور صدر ٹرمپ کی حلف برداری ہو لینے دینی چاہئے اس کے بعد ہی صحیح حالات کا اندازہ کیا جا سکے گا۔ اس بات چیت پر ہندوستانی وزارت خارجہ کا ردِ عمل یہ آیا ہے کہ امریکی صدر اور پاکستان کے وزیر اعظم کی فون کال سے آگاہ ہیںمنتظر ہیں ٹرمپ پاکستان کی کیسے مدد کریں گے؟۔
پاکستان کے عوام میں آج یہ بے چینی شدت سے پائی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ماضی کے بیانات درست تھے یا وزیر اعظم سے گفتگو کے دورن کا بیانیہ درست ہے؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی گفت و شنید انٹر نیشنل میڈیا کا خاص موضوع بنی ہوئی ہے ۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اکثر میڈیا پرسنز ٹرمپ کے مخالف ہیں جس کی وجہ سے اس گفتگو کو منفی اندازِفکر سے تعبیر کر کے وزیر اعظم اور حکومت پاکستان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
برطانیہ کے ابلاغِ عامہ کے ذریعہ انڈیپنڈینٹ نے اس گفتگو کے بارے میں اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پریس ریلیز حقیقت پر مبنی ہے تو پھر یہ ڈونلڈٹرمپ اور نوازشریف کے د درمیں ایک خوبصورت دوستی کی شروعات ہے۔دوسری جانب امریکی ایوانِ صدر وائٹ ہائوس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور نو منتخب صدرِ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو کی درستگی پر کوئی بات نہیںکر سکتے ہیں۔جب امریکی صدر اپنے بیرون ملک دوروںکی منصوبہ بندی کریں گے تو وہ کئی مقامات پر سفر کرنے پر غور کریں گے تو پاکستان اس میں یقیناََشامل ہوگا۔وقت گذرنے کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کی دھول چھٹنے لگی ہے۔اور ان کی سیاست مثبت رُخ اختیار کر رہی ہے جو مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان کے لئے اچھا شگون ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com