تحریر : سید عارف سعید بخاری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو گذشتہ 15 سالوں میں 33 ارب ڈالر کی امداد دے کر بے وقوفی کی ہے ،سماجی رابطے کی ویب سایٹ ”ٹیوئٹر”پر اپنے پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر دہشتگردی کا روایتی الزام دوہراتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے 2002ء کے بعد سے اب تک پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے لیکن وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتے ہیں انہوں نے امداد کے بدلے ہمیں جوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گائیں فراہم کرتا ہے جن کا ہم افغانستان میں تعاقب کرتے ہیں افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں معمولی مدد ملتی ہے مگر اب ایسا نہیں چلے گا ۔امریکی صدر کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی انہوں نے قومی سلامتی کے حوالے سے حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں تیزی لانے کیلئے مزید دباؤ بڑھائیں گے کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت کے بعد کوئی شرکت داری باقی نہیں رہتی ۔امریکی صدر کا یہ کہنا کہ پاکستان کو امداد دے کر بیوقوفی کی گئی ہے تو ایک بات بالکل واضح ہے کہ امریکہ نے جب بھی پاکستان کو امداد دی اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے دی ہے اور جب انسان اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے کسی کے ساتھ مالی تعاون کرتا ہے تو وہ بے وقوف نہیں ہوتا ۔لیکن ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ کسی ملک کا کوئی اتحادی ساری عمر اس کا دست نگر بن رہے اور اپنے ملک کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے جس حکمت عملی کے تحت اپنے دور حکومت میں امریکہ کا اتحادی بن کر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کیاہے اُس کا تجزیہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کسی دوسرے کو بے وقوف سمجھنے کی غلطی نہ کرے ورنہ اسے پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔سانپ کو مارتے وقت لاٹھی کو بچانا بھی عقلمندہونے کی نشانی ہے اور پرائی جنگ میں خود کو مکمل طور پر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی طور عقلمند ی نہیں ہو سکتی ۔صدر پرویز مشرف نے ایک ذہین و فطین جرنیل ہونے کا ثبوت دیا جس کا مخالفین کو بھی اعتراف کرنا چاہئے۔
دنیا اچھی طرح جانتی ہے روس کیخلاف امریکی جنگ میں پاکستان نے کس کس طرح امریکہ کا ساتھ دیا اور کس طرح سے افغان مجاہدین کی مدد سے روس کے ٹکڑے ٹکرے کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ،1979ء سے جاری اس جنگ میں پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ روس کو ختم کرنے کیلئے پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا بااعتماد اتحادی رہا ہے ۔ اس دوران بھی امریکہ پاکستان کو ہر ممکن امداد فراہم کرتا رہاجس کا مقصد امریکی مفادات کا تحفظ رہا ہے ، المیہ یہ ہے کہ اس جنگ میں اتنی امداد نہیں دی گئی جتنا پاکستان کی سلامتی و استحکام کوخطرات لاحق ہوگئے ہیں،بعد ازاں 9/11 کے بعد سے اب تک دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر پاکستان پر مسلط کی گئی ”پرائی جنگ ”نے بھی وطن عزیز کو کافی نقصان پہنچارہی ہے ،روس کیخلاف امریکی آشیرباد سے لڑی جانے والی جنگ میں افغان مجاہدین کو ہر ممکن امداد فراہم کی گئی ۔اس آڑ میں پاکستان کے فوجی و سویلین حکمرانوں پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ”ڈالروں” کے چکر میں حکمرانوں نے پرائی جنگ کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے ۔عسکریت پسند اور انتہاء پسند قوتیں جنہیں امریکی مفاد میں پاکستان نے اپنا ہر اوّل دستہ بنارکھا تھا ۔انہی میں سے کئی اور گروپ معرض وجود میں آتے گئے ،جنہوں نے گذشتہ ادوار میں وطن عزیز کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ،امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل میں ملک میں خود کش حملوں کے واقعات میں تیزی آتی گئی ۔ہزاروں فوجی جوان اور افسران ان طالبانی انتہاء پسندوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
امریکی حملوں میں بچے، بوڑھے اور جوان حتیٰ کہ خواتین بھی نشانہ بنتی رہیں ۔لیکن عالمی امن کے کسی ٹھیکیدار کو کبھی اس ظلم اور زیادتی پر پشیمانی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے اس پرائی جنگ سے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک کیا ۔چند روز قبل بھی امریکی صدر نے یک طرفہ کارروائیوں کا اشارہ دے کر دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے ”ڈومور ” پر دھیان نہ دیا تو وہ خود کارروائی پر مجبور ہوگا ۔اس مرحلے پر حکومت پاکستان نے واضح طور پر اعلان کر دیاتھا کہ اب مزید ”ڈومور” نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان اب ”ڈومور ”کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا ۔اسی حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں یکطرفہ کارروائیوں کا اشارہ باعث تشویش ہے ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں ہم دوستوں سے تنازعہ نہیں چاہتے لیکن ملکی سلامتی پر کسی بھی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ،ملکی سلامتی اور بقاء کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنائیں گے۔
بیرونی جارحیت کی صورت میں فوج، عوام اور سیاسی جماعتیں ایک ہیں ،ہم نے دوسروں کی مسلط کردہ دو جنگیں لڑیں اس لئے اب ہم کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اب ہم صرف اپنے لئے ہی لڑیں گے ۔ہم نے کبھی پیسے کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑی امریکہ نے ہمیں جو بھی رقم دی وہ اخراجات کی مدّ میں دی ملک پر منڈلانے والے خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے اب پاکستان کی نہیں بلکہ افغانستان اور خود امریکہ کی ”ڈومور” کی باری ہے ۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کا امریکی موقف کسی طور بھی کارآمد نہیں ،ہم اپنی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔پاکستان پر منڈلانے والے خطرات ایک عرصے سے موجود ہیں ۔ان حالات میں قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے تاکہ ریاستی یا غیر ریاستی ناپسندیدہ عناصر غیر یقینی کی فضا پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل نہ کر سکیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں خود کو طاقتور بنانا ہوگا ،بصورت دیگر ہمیں امریکی دھمکیوں سے مرعوب ہو نے کی بجائے مناسب حکمت عملی کے ساتھ اپنے معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا ورنہ ہماری مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں ۔یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ دیر سے سہی مگر پاکستان کی آنکھیں تو کھلی ہیں اور اب احساس ہوا ہے کہ امریکہ سرکار اپنے مقاصد کیلئے ہی پاکستان پر دبا ؤ بڑھا رہا ہے۔ افغانستان اس وقت عدم استحکام اور اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہے ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے اس لئے دھمکیوں پر اتر آیا ہے دوسری جانب بھارت بھی بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دینے میں پیش پیش ہے اور علیحدگی پسندوں کی مالی سپورٹ کر رہا ہے ۔کلبھوش یادیو نامی بھارتی جاسوس اس بات کی بڑی مثال ہے ۔جس نے اپنے بیان میں بھارت کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے ۔امریکہ ، بھارت و دیگر اسلام و ملک دشمن قوتیں ہماری سلامتی و استحکام کے درپے ہیں۔
ان حالات میں ہمارے سیاسی قائدین اور عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ آئین کی بالا دستی اور پاسداری کے نام پر کھیلا جانے والا کھیل بند کرکے وطن عزیز کی بقاء و سلامتی پر توجہ مرکوز رکھیں ۔عساکر پاکستان اس وقت دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے علاوہ سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات سے بھی ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے بیک وقت دو دو محاذوں پر مصروف عمل ہیں ۔اس لئے ہم سب کو اپنی بہادر افواج کے ہاتھ مضبوط کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔سیاسی قوتوں کو بلاوجہ افواج پاکستان پر تنقید کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ہماری صفوں میں اس وقت ایسے عناصر آ گھسے ہیں کہ جو اتحاد و یگانگت کی فضا کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ یہ وقت آپس میں لڑائی جھگڑے کا نہیں ہے اور نہ ہی افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں الجھانے کا ہے ۔عساکر پاکستان قومی دفاع کی ذمہ داریاں نبھانے میں اپنا تن من دھن قربان کر رہی ہیں اس لئے ہم انہیں ان کا کام کرنے دیں اور جمہوری سسٹم کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں تو یہ ملک کے حق میں بہتر ہوگا ۔امریکہ ہمارا پہلے کبھی دوست تھا اور نہ ہی آئندہ ہوگا ۔سی پیک منصوبے کی وجہ سے پاک چین تعلقات میں وسعت
امریکہ کی آنکھ میں کھٹک رہی ہے اس لئے وہ اس عظیم منصوبے کو ثبوتاژ کرنا چاہتاہے ، ہمیں ملک کے روشن مستقبل ، سی پیک کی حفاظت اور کامیابی کیلئے ٹیم سپرٹ کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔اگر امریکہ نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں کارروائیاں شروع کردیں تو یہ ہم سب کیلئے نقصان دہ ثابت ہوںگی ،ایسے اقدام سے سی پیک منصوبہ برباد یا ختم ہونے کااحتمال ہے اس لئے ہمیں اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر امریکی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے یکجان ہو کر آگے بڑھنا ہوگا اسی صورت میں ہم ایک خوددار قوم کی طرح زندہ رہ پائیں گے ورنہ امن و شانتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com