ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط فیصلے

Donald Trump

Donald Trump

تحریر : حفیظ خٹک
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ ناکام ترین صدر ہیں ، مورخین انہیں اگر کامیاب کہے گی تو یہ ان کی جانب سے تاریخ لکھنے کے شعبے سے غداری و ناقابل تلافی غلطی تصور کی جائیگی۔ اپنے انتخابی معرکے کی نام نہاد جیت سے اب تلک کئے گئے اقدامات میں کوئی بھی اقدام ایسا نہیں جس پر انہیں اپنے ملک کی عوام ،اپنی سیاسی جماعت اور حکومتی اکابرین کی جانب سراہا گیا ہویا ان کی پذیرائی کی گئی ہو۔حد تو یہ ہے کہ امریکہ کی عدالتیں تک انہیں اپنے فیصلوں پر نذرثانی کی تاکید کرتے اور بعض فیصلوں سے روکتے رہے ہیں۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ہیں کہ اپنے ہر فیصلے و ہر قدم کو جائز سمجھتے ہوئے من مانی کرتے چلے آرہے ہیں۔امریکی صدر کیلئے اور ان کی پوری کابینہ کیلئے یہ عمل قابل توجہ ہے کہ وہ ممالک جو ان کے ساتھ قدم بقدم رہتے اور آگے بڑھتے ہیں وہ ممالک تک اب امریکہ کے ساتھ آگے بڑھنے میں قباحت محسوس کررہے ہیں اور بسا ممالک نے تو اب کھلے لفظوں میں ان پر تنقید کرنا شروع کردی ہے۔امید واسق ہے کہ جلد وہ وقت آئیگا کہ جب امریکہ کے وہ عوام جنہوں نے اسے ووٹ دیئے ہیں ،وہ سب اپنے فیصلوں پر نادم ہونگے اور وہ سب احتجاج کرنے والوں کے ساتھ صف بستہ ہونگے۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے بہت بڑا امتحان ہی نہیں ان کیلئے بہت بڑی غلطی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔اس اعلان کے بعد جس انداز میں دنیا کے اندر احتجاج کی فضا بلند ہونا شروع ہوگئی ہے اس کے بہت گہرے اثرا ت مرتب ہونگے اور یہ اثرات جلد امریکہ اور ان کے حواری ممالک میں سامنے آنے لگ جائیں گے۔عراق، لیبیا اور اس کے بعد افغانستان میں پے درپے فوجی کاروائیوں سے امریکہ نے بہت کچھ حاصل کیا ہوگا اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی کہ وہ افغانستان میں پندرہ برس کی محنتوں کے باوجود بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے اور اس بات کا وہ بارہا اقرار تک کر چکا ہے۔

اب اپنے آپ کو وہاں سے نکالنے کیلئے اور پاکستان کو وہاں قیام امن کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔اس کے ساتھ چلنے والے نیٹو کے فوجی باوجود ہر طرح سے اسلحہ سے لیس ہونے کے وہ طالبان کو شکست نہیں دے سکے ہیں پندرہ برسوں میں وہ پورے افغانستان پر تو کیا اس کے آدھے حصے پر بھی اپنے پرچم نہیں جما سکے ہیں ۔وہاں کی عوام کی اکثریت آج بھی طالبان کے ساتھ اسی انداز میں کھڑی ہے جس انداز میں ان کے دور حکومت میں کھڑی تھی۔لیکن امریکی کو ن اپنی نام نہاد چوہدراہٹ کو برقرار رکھنا ہے اور اس مقصد کیلئے انہیں اب سہاروں کی ضرورت ہے اس ضمن میں انہیں سب سے بڑا سہارہ پاکستان کا ہی نظر آتا ہے اور اس سہارے سے مدد کیلئے وہ اپنا منافقانہ کردار ادا کرنے سے باز نہیں آئیں ہیں ۔ایک جانب ڈومور کا نعرہ ہوتا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کے جنگ میں پاکستان کی کارکردگی پر نام نہاد تعریف کے چند بول ہیں۔امریکی کی اس دوغلی منصوبہ بندی کے باجود بھی آفرین ہے پاکستان کی افواج پر پاکستان کی بہادر اور نڈر عوام پر جو انسا نیت سے پیار کرتے ہیں۔جو جذباتی ہیں اوردنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے مظالم کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان یروشلم پر بھی دنیا میں اگر سب سے پہلے کسی نے آواز اٹھائی تو وہ بھی اسی سرزمین پاکستان کی جانب سے آواز اٹھی ،شہر قائد کراچی کی یونیورسٹی روڈ پر رات کے دو ڈھائی بجے دفاع پاکستان کے کارکنان اکھٹے ہوئے اور انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف اپنے شدید جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے امریکی صدر سمیت ان تمام ممالک کو یہ بتا دیا کہ وہ یروشلم کہ جس میں قبلہ اول موجود ہے اور بیت المقدس دیکھنے اور اسے اس میں عبادات کرنے کی آرزو آج بھی ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے ،بھلا کیسے اسے اسرائیل کا دارلحکومت کر سکتا ہے؟لہذا امریکی صدر یہ بات کان کھول کر سن لو کہ وہ مقدس مقام مسلمانوں کی میراث ہے اور اس کا حصول مسلمان کیلئے لازم ہے۔ امریکی کے اس اقدام پر وہ چیدہ چیدہ ممالک بھی ناخوش ہیں اور انہوں نے امریکہ کو پہلے ہی اس اقدام سے باز رہنے کی تاکید کردی تھی ،چین ،فرانس و دیگر کے پیغامات امریکی صدر کو موصول ہوچکے تھے اور ترقی کے طیب اردگان نے تو یہ بھی واضح اعلان کر دیا تھا کہ ان کا ملک اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کردے گا ،یہی نہیں اس بات جیسی ان گنت باتیں امریکی صدر کو پہلے ہی بتادی گئی تھیں لیکن امریکہ نے کسی بھی بات کو اہمیت نہیں دی اور وہی قدم اٹھایا جو اس نے سوچ رکھا تھا ۔اس اقدام کے منفی اثرات امریکہ پر ثابت ہونگے اور ان اثرات کو امریکہ نہ صرف خود دیکھے گا بلکہ بڑی مشکل سے برداشت کرے گا۔

دنیا میں امن و سکون کا سب سے بڑامخالف امریکہ ہے ،اقوام متحدہ بنے کے بعد کی دنیاوی صورتحال کو دیکھ لیا جائے تو بھی یہی ایک نقطہ سامنے آتا ہے کہ امریکہ نے آج تک کوئی بھی مثبت اقدام ایسا نہیں کیا کہ جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچاہو اس کا ہر قدم انسانیت سوز رہاہے ۔یہ قدم جو اس نے مخص اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے اٹھا یا ہے اس کا بھی منفی اثر ہی مرتب ہوگا اور اس کا شکار اسرائیل اور امریکہ ہی ہونگے۔امت مسلمہ کو اور اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کو اس فیصلے پر اپنا ردعمل جلد واضح کرنا چاہئے ۔یہی اس کیلئے موزوں رہے گا۔۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک
(hafikht@gmail.com)