پاکستان میں کسی بھی ٹرسٹ ،خیراتی ادارے یا خیراتی ہسپتال کا دورہ کیا جائے تو وہاں آپکو متعدد ڈبے دیکھنے کو ملے گے جن پر ملتی جلتی تحریر درج ہو گی کہ اپنے عطیات اس میں ڈالے ۔حرف عام میں ان ڈبوںکو چندہ بکس کہا جاتا ہے ۔مگر پاکستان میں ایک ایسا بھی ادارہ ہے جس کی متعدد برانچیں پورے پاکستان میں عوام الناس کو اپنی خدمات فراہم کررہی ہیں۔مگر کسی بھی برانچ میں چندہ بکس نظر نہیں آئے گا۔ اسکا نام انڈس ہیلتھ نیٹ ورک ہے۔جس کے بانی پروفیسر ڈاکٹر عبد الباری خان ہیں۔
اگر عطیات کی بات کی جائے تو پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دینے والی اقوام میں شامل ہے۔اورسیریز پاکستانی ،مقامی حکومت کے علاوہ پاکستانی شہری اور نجی شعبہ پاکستان بھر میں ضرورت مند اداروں کو مدد، سازوسامان اور رضاکارانہ خدمت کے طور پر تواتر سے کروڑوں ڈالر براہ راست بھیجتے رہتے ہیں۔اور انہی کی کاوشوں سے یہ ادارے دن رات عوام الناس کی خدمت میں مگن ہیں۔انڈس فیملی کے رضاکار ڈاکٹرز اور نرسیں اکثروبیشتر بیماری کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے اگلے محاذوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں مظفر گڑھ،کراچی انڈس ہسپتال’ کے رضاکاروں کا حالیہ کرونا ء لہرمیں اپنی خدما ت سر انجام دیناشامل ہے جو کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت عوام الناس میں موجود ہیں۔پاکستانی حکومت کے بعدملکی ادارہ صحت کا دوسرا سب سے بڑا نیٹ ورک ہیلتھ انڈس چلا رہا ہے۔
واقعتاً عالمگیر نوعیت کی تنظیم انڈس فیملی’پاکستان میں قائم ہوئی اور کئی سالوںسے اس نے مقامی عوام الناس کو اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے اور رفائے عامہ کے لیے بالکل فری سروسز مہیا کر رہی ہے۔کرونا ء وباسے انڈس کے مستقل عزم نے بے شمار جانیں بچائی ہیں۔وائرس قومی سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتے۔ یہ ایک عالمگیر خطرہ ہیں۔ ملکی صحت کے میدان میں انڈس کی جانب سے فراہم کیے جانے والی سروسز میں وقت کے ساتھ نمایاں اضافہ ہوا ہے۔صحت سے متعلق عالمگیر پروگراموں میں سب سے بڑے ہیلتھ سروسز فراہم کرنے والے نیٹ ورک کی حیثیت سے پاکستان میں انڈس فیملی نے چند برسوں سے نظام ہائے صحت کو مضبوط بنانے کے عمل کی قیادت کی ہے اور بیماریوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے میں مدد دی ہے۔
انڈس نے پاکستان بھر میں وبائی بیماریوں سے لاحق خطرات کو روکنے، ان کی نشاندہی اور ایسی بیماریوں کے خلاف اقدامات کے لیے حکومت اور نجی اداروں کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو سروسز فراہم کی ہے ۔انڈس فیملی کی اس مدد سے ایچ آئی وی/ایڈز، ملیریا، ٹی بی ، کینسراور وبائی خطرات کا مقابلہ کرنے اور دنیا بھر میں بہت سے دیگر طریقوں سے صحت کی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملی۔ علاوہ ازیں انڈس فیملی پاکستانی ادارہ صحت کو فری سروسز اور معا ونت کرنے والاملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔پاکستان حکومت کے طریقہ کار کے تحت وفاقی،صوبائی ادارے ملک بھر میں صحت کے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان میں بیماری پر قابو پانے اور روک تھام کے مراکز اور قومی ادارہ صحت شامل ہیں۔ یہ دونوں ادارے پاکستانی محکمہ صحت و انسانی خدمات کے تحت کام کرتے ہیں جو وفاقی وزارت ہے۔
انڈس فیملی کی طرف سے بنائے گئے ادارے صحت عامہ سے متعلق قومی ادارہ کی جگہ لے چکے ہے جو وبائی اور دیرینہ بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام نیز اچھی صحت کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہے۔ اس برس نئے کورونا وائرس کی وبا (کووڈ۔19) کے دوران انڈس بیماری کی روک تھام اور اس سے بچاؤ کے لیے ملک بھر میں معلومات کے حصول کا انتہائی قابل اعتماد ذریعہ ہے۔جس کے پاس صحت کو بہتر بنانے اور زندگیاں بچانے کے لیے اہم نوعیت کی دریافتیں کرنے کی ذمہ داری ہے۔متعدد اداروں اور مراکز پر مشتمل انڈس ادارہ صحت کووڈ۔19 کی ایک سے دوسرے انسان کو منتقلی، اس کے خلاف ممکنہ ویکسین کی تیاری اور بیماری کے علاج میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔پاکستانی حکومت نے ‘تحفظ صحت کے عالمگیر لائحہ عمل’ کے لیے مضبوط و مستقل عہد کر رکھا ہے۔ یہ وبائی
بیماریوں کے خطرات کی روک تھام، نشاندہی اور ان کے خلاف اقدامات کے لیے دنیا کی اہلیت بہتر بنانے کی عالمگیر کوشش ہے۔ انڈس فیملی کی تحقیقات کے مطابق حکومتیں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ایسے سرٹیفکیٹس کا اجرا نہ کریں جن میں کہا گیا ہو کہ صحت یاب ہونے والے شخص کے جسم میں وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق مختلف حکومتوں کی جانب سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ‘خطرے سے پاک سرٹیفیکٹس’ (جنھیں ‘امیونیٹی پاسپورٹ’ کا نام دیا گیا ہے) جاری کرنے کا مقصد لاک ڈاؤن میں نرمی برتنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔سی ای او انڈس فیملی پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خاں کا کہنا ہے ایسے ‘شواہد موجود نہیں’ ہیں جو اس بات کی غمازی کر سکیں کہ کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے جسموں میں اینٹی باڈیز تیار ہو چکے ہیں جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسے افراد دوبارہ وائرس کا شکار نہیں ہو سکتے۔انہوںنے خبردار کیا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے لیے جانے والے ایسے اقدامات دراصل وائرس کی منتقلی کو بڑھا سکتے ہیں۔
چند حکومتیں کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کو کام پر جانے اور سفر کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہیں۔کورونا وائرس کی وجہ سے مختلف حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات نے عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں کورونا کے 28 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور دو لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اب تک جتنی تحقیق کی گئی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ جو لوگ ایک بار کورونا انفیکشن سے ٹھیک ہوئے ہیں ان کے خون میں اینٹی باڈیز تیار ہو چکے ہیں، تاہم صحت یاب ہونے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں ان اینٹی باڈیز کی سطح بہت کم ہے۔اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جسم کے قوت مدافعت کے نظام میں موجود ‘ٹی سیل’ جو متاثرہ خلیوں کو ختم کرتا ہے وہ صحت یاب ہونے یا اس وائرس سے لڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ختم شد