ہم نے گزشتہ تحریروں میں عرض کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے دہشت گردوں کوروڈمیپ دیا جارہاہے۔اب اسی روڈ میپ کے تحت طالبان کے بجائے نت نئی تنظیموں نے دہشت گردانہ کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کردی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب تو طالبان کی طرف سےبھی خود کش حملوں کی مذمت آنے لگی ہے۔اس وقت طالبان کی طرف سے مذمت کا مطلب یہ نکلتاہے کہ ہمارے علاوہ جو بھی دہشت گردی کرے وہ قابل مذمت ،کافر اور مشرک ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا ایجنٹ بھی ہے۔البتہ اگر ہم خود کریں تویہ سب عین شریعت اور توحیدو اسلام ہے۔
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ منگل کو جعفر ایکسپریس جیسے ہی ایک بج کر دس منٹ پر سبّی ریلوے جنکشن پہنچی توبوگی نمبر نو میں زوردار بم دھماکہ ہوا جس سے 17مسافر جاں بحق اور 49 زخمی ہوگئے۔یادرہے کہ جس روز دوپہر کو جعفر ایکسپریس بم دھماکے کانشانہ بنی، صدر مملکت ممنون حسین نے اسی شام گورنر ہاؤس کوئٹہ میں بلوچستان کی کابینہ کے ارکان سے ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’بات چیت سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ابھی جعفر ایکسپریس کے زخم ہرے ہی تھے کہ بدھ کے روز علیٰ الصبح سواآٹھ بجے وفاقی دارالحکومت دھماکوں کی گھن گرج سے لرز اٹھا اور پیرودھائی راولپنڈی کے قریب آئی ٹین کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکے سے 22 افراد جاں بحق اور116 سے زائد زخمی ہوگئے۔ مزے کی بات یہ ہے ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کی اور طالبان نے مذمت کی۔
یہاں پر ایک تیسرے فریق کا ذکر بھی ضروری ہے جسے ہم پولیس کہتے ہیں۔اس ساری گیم میں طالبان، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور پولیس کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی سی ہے۔ان کٹھ پتلیوں کا کام فقط بیانات داغناہے۔ ہم یہاں پر اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ طالبان کی طرح بلوچوں میں بھی متعدد دھڑے ہیں جنہیں اقتدار کا خواب دکھایا گیا ہے۔مثلاً بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ ، بلوچ ری پبلکن پارٹی ،بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ وغیرہ وغیرہ اس وقت سب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر بے گناہوں کا خون بہاکر اقتدار کی دیوی طالبان پر مہربان ہوسکتی ہے تو پھر دوسروں پر کیوں نہیں۔
Terrorists
حکومت نے بات چیت کے عنوان سے دہشت گردوں کو جو روڈ میپ دیا تھااب وہ اگلے مرحلے میں داخل ہوچکاہے اور دیگر دہشت گرد ٹولے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں۔ طالبان اقتدار کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک جنگل کا بادشاہ “شیر”بہت بوڑھا ہوگیاتھا [اتفاق سے ہمارے وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا انتخابی نشان بھی شیر ہی تھا]،وہ شیراتنا بوڑھاہوگیا تھا کہ اب شکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔ایک دن لومڑی نے اس سے کہا کہ اگر اسے اور اس کی قوم کو شکار میں سے بہترین حصہ دیاجائے تووہ موٹاتازہ گدھا بھلا پھسلا کر کچھار میں لاسکتی ہے۔
لومڑی اور شیر کے درمیان جب انعام و اکرام طے ہوگیا تولومڑی نے گدھے سے مذاکرات کے لئے اپنی قوم میں سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی۔اگلے چند دنوں میں لومڑیوں پر مشتمل یہ مذاکراتی ٹیم “گدھے” کی طرف چل نکلی اور اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے یقین دلایا کہ “بادشاہ سلامت ” بہت کمزور ہوچکے ہیں اور اب وہ اکیلے اس ساری سلطنت کو نہیں چلاسکتے لہذا اپنے “اقتدار” کو آپ کے نام کرنا چاہتے ہیں یا آپ کو شریک اقتدار کرناچاہتے ہیں،یا۔۔۔
اقتدار سے تو سب کو پیار ہوتاہے چنانچہ گدھے میاں بھی فراٹے بھرتے ہوئے بادشاہ سلامت کی بارگاہ میں پہنچے ۔گدھے کو دیکھتے ہی شیر کے منہ میں پانی بھر آیا،بادشاہ سلامت نے آو دیکھا نہ تاو،دھڑام سے گدھے میاں کے سر پر حملہ کردیا،گدھے میاں بوکھلاکر بھاگ کھڑے ہوئے اوربھاگتے ہوئے ان کا ایک کا ن بھی بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ہی رہ گیا۔
شیر کے ضعف اور کمزوری سے مذاکراتی ٹیم کے اعتماد کوبھی ٹھیس لگی،بہرحال لومڑیوں کی ٹیم نے بادشاہ سلامت کو یقین دلایا کہ اگر اب کی بار بچ نکلاہے تو کوئی بات نہیں گدھا بالآخر گدھا ہی ہوتاہے۔لہذا ہمیں مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے۔
مذاکراتی ٹیم از سرِنو عزمِ صمیم کے ساتھ “گدھے میاں” کی طرف روانہ ہوگئی،گدھے نے جیسے ہی مذاکراتی ٹیم کو دیکھا تو غصے سے دھاڑا،دفعہ ہوجاو۔۔۔کیا مجھے گدھا سمجھ رکھاہے؟ لومڑیوں نے روایتی مکاری کے ساتھ جواب دیا کہ گدھے ہونگے آپ کے دشمن،آپ تو ہمارے آئندہ کے حکمران ہیں۔”گدھے میاں “بولے پھر تمہارے بادشاہ سلامت نے کیوں میرا سر دبوچا اور کان کاٹ ڈالا۔۔۔مذاکراتی ٹیم نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ جناب یہ [ڈرون حملے] تو “اعتماد کے فقدان” کے باعث ہوا ہے۔اصل میں بادشاہ سلامت تو آپ کے کان میں رازداری کے ساتھ حکومتی اسرارورموز بیان کرناچاہتے تھے کہ آپ ڈرسے اچھل کر بھاگ نکلے اور یوں آپ نے اپناکان بھی کھودیا۔
جب گدھے نے یہ جواب سنا تو دکھ سے اس کی آواز بھر آئی ،کہنے لگا مجھے خود جنگل کی بے کس رعایا کا بہت دکھ ہے۔میں چاہتاہوں کہ اقتدار کو اپنے ہاتھ لے کر یا شریک اقتدار ہوکر رعایا کو اس کسمپرسی سے نجات دلاوں لیکن اس کے لئے ضروری ہے پہلے اعتماد کی فضا بحال کی جائے۔لومڑیوں نے جب گدھے میاں کو یوں رال ٹپکاتے دیکھاتو فوراً پوچھا کہ اعتماد کی فضا کیسے بحال ہو؟
میاں بولے ہمارے لئے “فری زون ” قائم کیا جائے۔لومڑیوں نے حامی بھرلی اور پھر اگلے روز فری زون میں دوبارہ گدھے میاں نے خود جاکر اپنا سر “بادشاہ سلامت” کے قدموں میں رکھدیا۔ شیر نے چند ہی لمحوں میں اناً فاناً گدھے کے ٹکڑے کردئیے اور لومڑیوں کو ان کا حصہ دیدیا۔
ہماری تمام اقتدار خواہوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ درندوں اور لومڑیوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہوتاہے ۔لہذا حصولِ اقتدار کے لئے “گدھے “مت بنیں۔ درندوں اور لومڑیوں کی طرف سے دکھائے گئے خوابوں کو منسوخ کر کے ،اصلاح ملت،تعمیر ملت اور وحدت و اخوت کی طرف لوٹ آئیے۔
Workers
بے گناہوں کا خون بہانے ،ملت کے نون ہالوں کو یتیم کرنے کے ، مزدوروں اور مسافروں پر شب خون مارنے کے بجائے اوراس “گدھے پن “کو ترک کرکے، بہادروں، مسلمانوں، ذمہ دار پاکستانیوں اور حقیقی مجاہدوں کا کردار ادا کیجئے۔ ویسے بھی::::::::: ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے