سیانے کہتے ہیں مہمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے باعث رحمت ہوتا ہے حضرت ابراہیم بن ادہم کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ بڑے مہمان نواز تھے جب تک آپ کے ہاں کوئی مہمان نہ آجاتا آپ کھانا نہیں کھاتے تھے۔اکثر اوقات مہمان کو ڈھونڈ کر گھر لے آتے تھے اور مل کر کھانا تناول فرماتے تھے۔
ماہ صیام کا آغاز ہو چکا ہے۔ماہ رمضان کو اللہ تعالیٰ کا خاص مہمان بھی کہا جاتا ہے۔رحمتوں ،برکتوں والا مہینہ مسلمانوں کے بطور انعام ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے خاص مہمان کو مسلمانوں کے لئے بھجتا ہے ،اس ماہ میں باقی مہینوں کی نسبت کی جانے والی نیکیوں کے درجات سترگناہ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔شیطان کو پابند سلاخل کیا جاتا ہے،دوزاخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور رحمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔یوں سمجھیں نیکیوں کا بنک بیلنس بڑھانے کا بہترین موقع مل جاتا ہے۔
حضر ت محمد ۖ نے فرمایا!شعبان خاص میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا ۔آپ ۖ تو شعبان میں بھی کثر ت سے روزے رکھا کرتے تھے۔مسلمانوں کے لئے تو صر ف اور صرف ایک ماہ یعنی رمضان مبارک کے روزے فرض کئے گئے۔پھر بھی روزے نہ رکھنے کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔جس طرح دن میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہے اسی طرح سال میں ایک ماہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں۔مگر افسوس،صداافسوس،اُمت محمدیہ وہ بھی نہیں رکھتی۔
نجانے کیوں انہوں نے سچائی کا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اپنا لیا ہے۔وہ راستہ جہاں ،مصیبتیں،گردشیں،تکلیفیں،ذلت ورسوائی کے انبار لگے ہیں۔یہ وہ راستہ ہے جو دوزاخ کی آگ میں لے جاتا ہے۔گمراہی کا راستہ بظاہر آسان ہے اصل میں گناہوں کی دلدل ہے۔عذاب مسلسل ہے۔بھڑکتی آگ ہے ۔شیطان توانسان کا کھلا دشمن ہے۔قرآن مجید میں بار بار انسان کو باآوار کرایا گیا ہے کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچو یہ تمھار کھلا دشمن ہے۔مگر آج کے لوگوں نے قرآن مجید کو قسمیں اٹھانے کے لئے رکھا ہوا ہے۔سچائی تو یہ ہے جنہوں نے سچائی کا راستہ اختیا ر کیانہوں نے فلاح پائی۔انھیں دونوں جہانوں میں نواز دیا گیا۔
تعجب کی بات ہے رمضان مبارک کے شروع ہوتے ہی منافع خوروں کی عیدیں ہو گئی ہے۔تاجروں ،بلیک مافیا نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔اشیا خورد نوش کے ریٹ آسمان کو چھو رہے ہیں۔خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے سستے بازار تو متعارف کروا دیئے مگر ان بازاروں میں بکنے والی اشیا کا نوٹس بھی لیتے تو اچھی بات تھی۔شکایت کریںبھی تو کس سے کریں۔کوئی سنتا ہی نہیں۔صرف کاغذی کاروائی ہوتی ہے عمل درآمد نہیں ہوتا۔سفید پیپر کالے ہوتے ہیں۔ناقص چیزوں کا ریٹ کم کر کے ان بازاروں میں کھلے عام فروخت جاری ہے۔
رب تعالیٰ کا انصاف دیکھو،رمضان مبارک شروع ہوتے ہی موسم سہانا ہو گیا ۔ملتان شریف گرمیوں کا شہنشاہ کہلاتا ہے۔گرمیوں میں ملتان شریف کا رُخ تو یہاں کا باسی بھی نہیں کرتا۔رمضان مبارک شروع ہونے سے پہلے گرمی کا عروج تھا۔مگر اللہ تعالیٰ نے مون سون کی بارش عطا کرکے موسم کو نہ صرف ٹھنڈا بلکہ سہانا بنا دیا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنا پیار کرتا ہے۔مگر انسان ہی نا شکرا ہے۔اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں پاکر بھی خامیاں تلاش کرتا رہتا ہے۔
Ramadan
رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں جو مناظر دیکھے دل خون کے آنسو رر رہا ہے۔اُمت محمدیہ کو کیا ہو گیا ہے؟ہر ہوٹل کے چاروں طرف قناعتیں،شامیانے لگاکر ظاہری طور پر ہوٹل بند ہے۔مگر اندر جا کر دیکھو،اُف میرے خدایا،دل سینے سے باہر آنے لگتا ہے۔جسم کا روں روں کانپ کر رہ جاتا ہے۔موٹے تازے ،ہٹے کٹے لوگ بیٹھے جو اء ،کھیل رہے ہیں۔ڈرنک پی رہے ہیں۔قہقے فضائوں میں گونج رہے ہیں۔شراب چل رہی ہے۔کھانا کھایا جا رہا ہے۔
نہ کوئی روکنے والا ہے،نہ ان کو شرم آتی ہے۔پھر کیوںنہ عذاب الہی ان پر ٹوٹے۔بے ضمیرانسان ہے جو انسان سے ڈرتا ہے مگر انسانوں کو پیداکرنے والے خدا سے نہیں ڈرتا۔وہ جو ہر پل ،ہر لمحہ ہر کسی سے باخبر بھی ہے،ہر کسی کو جانتا بھی ہے۔جو ظاہر ہے وہ بھی دیکھ رہا ہے اور جو چھپا ہے اس کے سامنے چھپا نہیں ہے۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے پل بھر میں چلتی پھرتی مخلوق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلا سکتا ہے۔
جسے چاہے زندہ کرے اور جسے چاہے موت دے دے۔وہ قادر ہے۔وہ رحمان ہے جو اپنے بندوں پر رحم کرتا آرہا ہے۔جس دن اس کی بے آواز لاٹھی برسی تو کسی کی فریاد نہیں سنی جائے گی۔یہ انسانی آنکھ تو نہیں ہے جو چھپی چیزنہیں دیکھ سکتی۔وہ سب کے دلوں کے بھید جانتا ہے کون کیا کررہا ہے۔
مومن روزے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہیں اور انسانوں کے روپ میں درندے درندگی کی انتہا کر رہے ہیں۔رمضان المبارک کا خیال ہے نہ روزے دار کا،ان کے سامنے کھلے عام منہ ہلاتا جارہا ہے۔جیسے جانور دُنیا سے بے نیاز اپنے پیٹ بھرنے کے لئے گھاس کھاتا رہتا ہے۔روزے نہ رکھنے کے بہانے تلاش کرتے کرتے من کالے ہو گئے ہیں۔نجانے اس قوم کو کیا ہو گیا ہے۔لگتا ہی نہیں ہے کہ ماہ رمضان مبارک کا آغاز ہو گیا ہے۔
آج کا مسلمان کس سمٹ چل پڑا ہے۔سچ بولنا نہیں آتا اور جھوٹ فر فر بولتا ہے۔ مسجد کا راستہ بھول گیا ہے اور شراب خانے روز جاتا ہے۔ نہ باپ کی عزت رہی نہ ماں کی عزت کرنی آئی۔ درندگی، شیطانیت حاوی ہے۔رب رحمان کو بھول کر شیطان کے غلام بن گئے ہیں۔ روزہ تو تقویٰ سیکھاتا ہے۔کاش ہمیں تقویٰ کرنا آجاتا۔اللہ تعالیٰ تمام اہل مسلم کو ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے اورسیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس راستے پر جس پر اس نے انعام و کرام سے نوازہ ہے۔آمین!