تحریر : عمران عباس خواجہ پاکستان کے حالات دن ب دن عجیب ہوتے جا رہے ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ اگر ایسے حالات رہیں تو پاکستان ختم ہوجائے گا کوئی کہتا ہے کہ اگر ایسے حالات رہیں تو پاکستان ترقی کر جائے گا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اس کا نام سرفہرست آجائے گا، میں نے جب سے ہوش سنبھالا پاکستان کو مختلف مسائل میں گِرا دیکھا، بلکہ میرے آباواجداد سے بھی یہی سنتا ہوا آیا ہوں کہ پاکستان جب سے بنا ہے مسائل سے دوچار ہے ، ہاں پرایک بات ضرورہے جو مسائل ان کے دور میں تھے وہ کچھ بھی نہیں تھے کیونکہ پاکستان جن مسائل میں آج گِرا ہوا ہے شاید ایسے مسائل کبھی بھی درپیش نہیں تھے، پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی، اور کرپشن کا ہے دہشت گردی نے نائن الیون کے بعد پاکستان میں اپنے پائوں جمائے نائن الیون کے بعد جتنے بھی حکمران ، فوجی جنرل آئے ان سب نے دہشت گردی کو صرف رسمی طور پر روکہ لیکن جنرل راحیل شریف نے اس کو علمی طور پر روکنے کی کوشش کی
ان کی یہ کوشش کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی اور میرے خیال میں پاکستان میں 50فیصد دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا، لوگ بھلے اسے 80فیصد کہیں لیکن میرے حساب سے 50فیصد ہی ختم ہوئی ہے لیکن پاکستان کی عوام کو امید ضرور ہے کہ اگر ایسے ہی سسٹم چلتا رہا تو ایک دن پاکستان سے دہشت گردی کی جڑیں ضرور ختم ہونگی، آپ کو حیرت ضروت ہوگی کہ پاکستان کی عوام فوجی جرنیلوںسے کیسے امید کرسکتی ہے جبکہ سب کو پتہ ہے کہ فوجیوںاور مارشلہ کا کوئی حامی نہیں ہوتا لیکن پاکستان کی تاریخ میں جو اس بار سیاستداوں اور بیوروکریٹس نے کیا ہے وہ کسی دور میں نہیں کیا ایسا کہہ لیں کہ دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو لوٹا، محترمہ بینظیر بھٹو نے ملکی سیاست میں سیاستدانوں کے اندر مفاہمتی پالیسی کی جو بنیاد ڈالی اسی پر چلتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کوچیرمین آصف علی زرداری نے 2008سے اپنی حکومت کا آغاز کیا،
بھاری مینڈیڈ کی چھڑی اپنے ساتھ لیکر چلنے والے آصف زرداری نے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوششیں کی اور مفاہمت کی پالیسی پر گامزد رہے،سندھ میں پیپلز پارٹی کی بھاری اکثر یت ہونے کے باوجود بھی انہوں نے ایم کیو ایم کو ساتھ لیا اور ایک سفر دو راہی کی طرح آگے بڑھتے گئے، مینڈیڈکا غرور لیئے ہوئے وہ اپنو اور پرایوں کو ناراض کرتے ہوئے اور کسی کی بھی پروا کیئے بنا آگے بڑھتے رہے جب اس کے بعد کی آنے والی الیکشن میں تو سب نے دیکھا کہ وہ مینڈیڈ وہ اکثریت سب ختم ہوگئی اور سندھ کے علاوہ وہ دیگر کسی بھی صوبے میںحکومت نہیں بنا سکے،اگر انہوں نے پانچ سالوں کے دوران ایسے کام کیئے ہوتے کہ عوام کو رلیف ملا ہوتا تو عوام ایک بار پھر سے اسے ضرور چنتی، 2013سے شروع ہونے والی حکومت سندھ میں بھی ایم کیو ایم کو شامل کیا گیاان سات آٹھ سالوں کے دوران ان دونوں میں بہت سی لڑائیاں ہوئی،
MQM
ایم کیو ایم ناراض ہوتی پھر کچھ دنوں بعد راضی ہوکر حکومت میں شامل ہوجاتی ، میری تحریر کے عنوان ڈبلAAسے مراد الطاف اور آصف ہیںجو اپنے عروج کے بعد اب زوال میں داخل ہوچکے ہیں الطاف بھائی کئی سالوں سے لندن میں بیٹھ کر حکومت سندھ اور کراچی کو سنبھال رہا ہے ، جبکہ آصف زرداری پاکستان میں بیٹھ کر خصوصاََ سندھ کو سنبھال رہا تھا وہ اس وقت اپنے رشتیداروںاور اپنے بیٹے اور پیپلز پارٹی کے چیر مین بلاول بھٹو کے ہمراء دبئی پہنچ گئے ہیں اور پھر وہاں سے امریکا جانے کا پروگرام ہے ،ان کے واپس آنے کا کچھ نہیں کہا جا سکتا باتین کرنے والے تو یہاں تک بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ این آر او کے تحت چلا گیا ہے لیکن بلاول بھٹو ایک بار بھر سے ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے واپس آچکا ہے،
آج سے کچھ عرصہ قبل جب بلاول بھٹو بڑی دھوم دھام سے پاکستان واپس آیا تو پیپلز پارٹی کے جیالوں کو اک امید کی کرن دکھائی دی تھی سب نے بلاول کے روپ میں محترمہ بینظیر بھٹو کو دیکھالیکن جس تیزی سے وہ آگے آئے اسی تیزی سے وہ پیچھے ہٹ بھی گئے اور پاکستان سے واپس بھی چلے گئے، عوام نے پھر سے دیکھا کہ بلاول اپنی ماں نہیں بلکہ اپنے باب کے نقشے قدم پر چلنے لگا ہے ، اس وقت ایم کیو ایم پر بھار ت سے تعلقات کا الزام لگ چکا ہے جبکہ حکومت سندھ پر بے انتہاء کرپشن کے الزامات ہیں ان الزامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے رینجر نے کاروائیاں شروع کردی ہیں
نیب بھی آگے آرہی ہے جس کے ڈر سے کتنے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں اور کتنوں کے تھیلے تیار ہیں بس موقعے کی تلاش میں ہیں کہ موقع ملے تو بھاگ جائیںپاکستان کی تاریخ میں اتنی کرپشن کبھی نہیں ہوئی اور پاکستان کی تاریخ میں اتنی پکڑ کبھی نہیں ہوئی، تجزیانگاروں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس بار رسی بڑے زور سے کھنچے گی، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پہلے کی حکومتیں اپوزیشنوں کو فرار ہونے کے راستے فراہم کرتی تھیں
Pakistan Political Parties
لیکن اس بار وفاق کی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو سبق سکھایا جائے شاید یہی وجہ ہے کہ ایک دن بی بی سی ایم کیو ایم پر بھارت سے تعلقات کے الزامات کی رپورٹ پیش کرتی ہے تو دوسرے دن ہی حکومت پاکستان برطانیہ کو خط لکھ دیتے ہے کہ ان الزامات میں کتی سچائی ہے اس میں ہماری مدد کی جائے، کیا حکومت پاکستان کو پتہ نہیں ہے کہ ایم کیو ایم کے کس کس کے تعلقات ہیں کیا حکومت پاکستان کو پتہ نہیں ہے کہ کراچی کی دہشت گردی میں ایم کیو ایم کا کتنا ہاتھ ہے، لیکن حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ کوئی کاروائی کی جائے تو کسی ٹھوس بات پر کی جائے،
ادھر لندن میں الطاف کے خلاف اسکارڈ یارڈ نے تحقیقات مکمل کرلی ہے لندن میں ایم کیو ایم کے دو اہم رہنمائوں نے بھی ایم کیو ایم کے خلاف گواہی دے دی اور ان کے خلاف ثبوت پیش کردیئے ہیںدوسری جانب پاکستان میں رینجر ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے پر تلی ہوئی ہے،اس میں حکمرانوں یا فوج کی کوئی سازش نہیں ہے یہ سب ان کے کیئے ہوئے اعمالوں کے اجر ہیں،
اس کے علاوہ اس وقت پیپلز پارٹی کا بھی گھیرائو تنگ کیا جارہاہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی آصف کے بغیر اور اور ایم کیوا یم الطا ف کے بغیر چل پائے گی یا نہیں اور اگر چل گئی تو ان کے جانشیں کون ہونگیں اس پر سوچنا ہے۔۔۔