تحریر: عارف رمضان جتوئی ایک گائوں میں کنواں تھا جہاں سے وہ سب لوگ پانی پیتے تھے۔ کنویں کا پانی بہت صاف اور شفاف تھا۔ صرف اسی ایک جگہ پانی ملنے کی وجہ سے گائوں کے جانور بھی وہاں جاتے تھے۔ کنواں بہت گہرا اور وسیع تھا۔ ایک دفعہ ایک کتّا پانی پینے وہاں گیا اور کنویں میں گرپڑا۔ کتے کو گرتے ہوئے کچھ بچوں نے دیکھ لیا۔
کچھ دن میں یہ خبر گائوں میں پھیل گئی کہ کنویں میں کتا گر گیا ہے۔ سب لوگ بہت پریشان ہوئے اور سیدھے مولوی صاحب کے پاس گئے کہ کنویں کا پانی پیئے یا نہیں؟ مولوی صاحب نے کچھ عالمانہ تقریر چھاڑی پھر حکم صادر کردیا کہ 40 بالٹی پانی نکال کر پھنک دیں اور اس کے بعد از راہ ضرورت پانی استعمال کریں۔
وہ سب کنویں کے پاس گئے اور چالیس بالٹی پانی نکال کر پھنک دیا مگر کتے کو کسی نے نہیں نکالا۔ چند دن میں گائوں کے اکثر لوگ بیمار ہوگئے جن میں بچے اور بوڑھے شامل تھے۔ جب لوگ مولوی صاحب کے پاس گئے تو انہوںنے کہا کہ کتے کو کنویں سے نکالنے کے بعد چالیس بالٹی پانی نکالو۔ ہماری حکومت میں بھی کچھ اس طرح کی سوچ پائی جارہی ہے۔
جوں ہی شہر کے حالات کشیدگی کی طرف جاتے ہیں یا پھر کوئی مخصوص ایام آتے ہیں حکومت سندھ ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی ہے یا پھر موبائل فون سروس بند رکھنے کی سفارشات مانگنا شروع کردیتی ہے۔ خبر ہے کہ یوم علی کے موقع پر دو روز کے لئے ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پھر خبر اپڈیٹ ہوئی ہے کہ حکومت سندھ نے یوم حضرت علی کے موقع پر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر وفاق سے شہر میں موبائل فون سروس بند رکھنے کی سفارش کی ہے۔
Sindh Government
عوام کے ساتھ کچھ ناروا سلوک رکھنے والی حکومت کو لگتا ہے کہ ان چیزوں سے ان کی سیکورٹی ان دو باتوں میں پنہاں ہیں۔ جبھی پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں سابق وزیر داخلہ کی جانب سے موبائل فون پر پابندی اور پھر ڈبل سواری پر پابندی کے احکامات نے وفاقی سطح پر عوام کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔ تاہم اب جب وہ پارٹی سمٹ کر ایک صوبے کی سطح پر آئی ہے تو انہیں احکامات کو یہاں بھی صادر کرواتی پھر رہی ہے۔
حکومت سندھ کو جیسے نہ تو اپنے سیکورٹی اداروں پر بھروسہ ہے اور نہ خود پر کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھ پائے گی۔ ورنہ اس طرح کے احکامات کی سفارشات طلب کرنے کی کبھی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔
سندھ حکومت یہ بات کیوں نہ یاد رکھتی کہ شہریوں کے امن و امان کو بحال رکھنے کے لئے موبائل فون سروس بند کرنے اور ڈبل سواری جیسی عوامی سہولت پر پابندی عائد کر کے نہیں ضرورت نہیں بلکہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے اور اپنی تیاری کو مظبوط رکھنے کی ضرورت ہے جو شہر کے امن کو خراب کر رہے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کی ہر سہولت پر پابندی عائد کرنے کے باوجود بھی جبکہ حکومت اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھے گی تب تک شہر میں امن و امان کی صورتحال اللہ نہ کرے ایسی ہی رہے گی۔ اس لئے شہریوں کو ازیت دینے اور ان کو تنگ کرنے کی بجائے حکومت اپنے نوجوانوں ، سیکورٹی اداروں اور پولیس و رینجرز پر بھروسہ کرے، انہیں اپنا اعتماد دے اور ان سے اعتماد لے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو لیڈروں کے پروٹو کول تک محدود نہ سمجھیں۔ ورنہ جب تک کتا کنویں میں رہے گا کتنے بھی ڈول پانی کے نکال لئے جائیں پانی صاف نہیں ہوگا۔