تحریر : عماد ظفر دہرا معیار بھی ایک عجیب شے ہے یہ آپ کی آنکھوں پر ایک ایسی پٹی باندھ دیتا ہے جس سے آپ اپنے لیئے ہر چیز جائز اور دنیا یا معاشرے کیلئے ہر چیز ناجائز قرار دیتے ہیں.کرہ ارض پر شاید ہی کوئی ملک وطن عزیز جیسا ہو جہاں ہر کوئی بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اپنی اپنی زات کو عقل کل قرار دیتے تمام مسائل کا حل دیتے نظر آئے . اٹھارہ کڑوڑ کی اس آبادی میں ہر شخص چلتا پھرتا وزیراعظم تجزیہ نگار دانشور اور مبصر ہے. اگر قلت ہے تو اپنے اپنے شعبہ زندگی میں کام کرنے والوں کی.آپ ایک ڈاکٹر کے پاس چلے جائیے وہ آپ سے تمام وقت ملکی حالات یا کرپشن کا رونا روتا نظر آئے گا لیکن اپنے شعبے کی تحقیقات اور نت نئے طریقہ علاج سے بے خبر دکھائی دے گا. ایک انجینئر آپ کو ملک میں بد نظمی اور بے ایمانی کا رونا روتا دکھائی دے گا پورا دن کام کے بجائے دنیا بھر کی عمارات کی تعمیرات کے گن گاتا دکھائی دے گا.
ایک دانشور آپ کو تعلیم اور حکمرانوں کی نااہلی پر ہمہ وقت واویلا اور شور و غل مچاتا نظر آئے گا اساتذہ جدید تدریسی طریقوں یا تحقیق کو اپنانے کے بجائے تعلیم نظام کی زبوں حالی یا مراعات کی کمی کا رونا روتے نظر آئیں گے.غرض کہ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے کی مثال لے لیجئے آپ کو سب لوگ اپنے اپنے شعبوں کے بجائے دوسرے تمام شعبوں کے ماہر بنے نظر آئیں گے. ایسا معاشرہ جہاں سب دانشور اور انٹیلیکچول نظر آنے کی دھن میں اپنے اپنے بنیادی فرائض کی بجا آوری کو مسلسل نظر کیئے ہی جاتے ہیں.ہر آدمی اپنے لیئے شاٹ کٹ ڈھونڈتا دکھائی دیتا ہے.ایسا شا ٹ کٹ جو اسے راتوں رات کڑوڑ پتی بنا دے معاشرے میں ایک نمایاں مقام دلوا دے. نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین ہوں یا سرکاری دفتروں میں کام کرتے افراد سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر خود آگے جانا چاہتے ہیں. اور اس ترقی کیلئے تمام کے تمام اصول اور قوانین کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں.
اپنے لیئے کوئی اخلاقیات کا معیار اور قانوں کی پابندی نہیں چاہتے لیکن دوسروں کے لیئے سخت سے سخت قانون اور بلند سے بلند اخلاقی معیار چاہتے ہیں. معاشرے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے شعبوں میں کام چوری سے لے کر رشوت خوری اور سفارشی کلچر کو خود خوب پروان چڑھانے کے بعد ہر شخص معاشرے میں کرپشن بے ایمانی اور میرٹ کی دھجیاں بکھرنے کی دہائیاں دیتا دکھائی دیتا ہے.پیسہ کما کر پلاٹ یا زمین خرید کر یا بنک میں فکس ڈیپازٹ کروا کے ماہانہ سود کھا کر ہر شخص ملک میں نوکری اور کاروبار کے مواقع نہ ہونے پر گھنٹوں لیکچر داغتا دکھائی دیتا ہے اور سود کے خلاف جنگ جیسے نعرے بھی لگاتا دکھائی دیتا ہے. ایک مانا ہوا اصول ہے کہ سرمائے کو گردش میں رکھا جائے تو کاروباری مواقع اور نوکریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن اس پر سانپ بن کر بیٹھ جانے سے یا اسے نان پراڈڈکٹو کاموں میں لگانے سے جمود برقرار رہتا ہے.اپنا سرمایہ ہر طرح سے مہفوظ اور کسی رسک کے بنا اس پر منافع بھی چاہتے ہیں لیکن سیاستدانوں اور دیگر افراد کے سرمائے کو وطن میں کاروبار میں استعمال ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.
ہر دوسرے گھر میں کمپریسر لگا کر گھروں کو ملنے والی گیس کا پریشر اپنے اپنے کمروں کے ہیٹر اور کچن کے چولہوں کے لیئے کھینچا جاتا ہے اور پھر گیس کے پریشر میں کمی کے خلاف مظاہرے بھی کیئے جاتے ہیں.بجلی چوری بھی کی جاتی ہے میٹر ریڈر کے ساتھ مل کر کنڈے لگا کر یا دوسرے کے میٹر سے کنکشن جوڑ کر. اور پھر ہٹ دھرمی سے لوڈشیڈنگ کے خلاف نعرے بھی لگائے جاتے ہیں. انکم ٹیکس کا نام سنتے ہی مہنگائی کا رونا اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں لیکن ٹیکس کے گوشوارے نہیں جمع کرواتے اور پھر ان ڈائیریکٹ ٹیکسوں کی صورت میں کھانے پینے سے لے کر روز مرہ ضرورت زندگی کی اشیا پر اس سے گئی گنا زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں.ہوٹلوں میں کام کرتے بیروں دفاتر کے باہر کھڑے گارڈز یا آفس بوائے کو خوب جی بھر کے ذلیل کرتے ہیں اور جب اختیارات میں کوئی طاقتور خود ایسا سلوک ان کے ساتھ کرے تو اخلاقی اقدار کا رونا روتے ہیں.پی آئی اے کی ائیر ہوسٹس ہو یا بسوں میں میزبانی کے فرایض انجام دینے والی بچیاں یا کسی دفتر میں ریسیپشن پر فرایض کی انجام دہی میں مصروف خواتین سب کو جی بھر کے ایک مارکیٹ میں پڑی چیز کے مترادف کھل کر چھیڑ چھاڑ جنسی ریمارکس اور نظروں کا نشانہ بناتے ہیں اور جب یہی سب کچھ اپنی بیٹی بہن یا بیوی سے ہو تو معاشرے کو بے حیا قرار دیتے ہوئے اسے دین سے دوری اور تربیت کی کمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں. غربت اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے سب غربت کے خاتمے کے نعرے لگاتے اور گھنٹوں غریب بچوں کی بے بسی پر بحث و مباحث کرتے ہیں اور پھر اپنے بچوں کو میک ڈونلڈ کھلاتے ہوئے ان غریب بچوں کو پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے اور اگر کوئی پانچ دس روپے کا کھلونا بیچنے آئے یا پیسے مانگ بیٹھے تو اسے دھتکارتے ہوئے محنت سے کمانے پر بھاشن دیتے نکل جاتے ہیں.
وہ محنت جو خود کیلئے حرام ہے لیکن ان بچوں کیلیے حلال. پورا ہفتہ ٹکا کر دھونس دھاندلی چوری رشوت خوری اقربا پروری اختیارات کے ناجائز استعمال کے بعد جمعے کو عطر اور خوشبوئیں لگا کر مسجد میں پہنچ جاتے ہیں اور جمعہ کی نماز کے بعد گڑگڑا کر اپنی بخشش اور بے ایمانی اور ظلم کرنے والوں کی بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں.اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو کسی پیر فقیر کی درگاہ پر بھی خوب دیگیں نزر کر کے گناہ بخشوا کر پھر سے اگلے گناہوں کی تیاری میں مشغول ہو جاتے ہیں. ہم جنوبی ایشیا میں واقع ہیں اور اس خطے میں دنیا کی آدھی سے زیادہ غربت پلتی ہے خود ہمارے ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے لیکن میزائلوں کے تجربات ایٹمی دھماکوں اور اسلحے کی خریداری پر ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے غربت اور جہالت سے بس یہی ہمیں نجات دلوائیں گے. بطور معاشرہ ایک دوسرے کو ہی نیچا دکھا کر خوش ہوتے ہیں اناوں کی تسکین کیلئے اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی جہنم بنائے رکھتے ہیں. رشتے زات پات برادری کو اپنے اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کے بعد رونا بھی روتے ہیں کہ دیکھئے معاشرہ کتنا بے حس ہو چکا ہے. بچوں کی شادیاں کرتے وقت جہیز بھی بے پناہ مانگتے ہیں اور شادی پر فضول خرچی بھی لیکن بچیوں کی شادی کے وقت فورا جہیز ایک لعنت ہے آور شادی سادگی سے ہونی چایئے جیسے الفاظ کا سہارا لے کر بے بسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں.موبائل فون بیچیں یا اشیائے خوردونوش جی بھر کے دو نمبری کرنے کے بعد بڑے بڑے الفاظ میں دکانوں اور دفاتر پر حدیث نبوی بھی آویزاں کر دیتے ہیں کہ جس نے بے ایمانی کی وہ ہم میں سے نہیں.
مارکیٹوں میں مخصوص فرقوں کا داخلہ بھی ممنوع قرار دے دیتے ہیں لیکن امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں دوارے بیانات لے کر فورا تعصب پرستی کے نعرے لگاتے ہیں اور مسلمانوں کی دل آزاری پر افسردہ نظر آتے ہیں.مزدوروں کے حقوق پر بھاشن دیتے ہیں لیکن ان کو اجرت مقرر کردہ سرکاری ریٹ سے بھی کم ادا کرتے ییں.بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیج کر سرکاری سکولوں کی زبوں حالی کا رونا روتے نظر آتے ہیں.بھارتی فملوں اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہندوستان کی تباہی کی دعائیں اور نعرے خوب زور و شور سے لگاتے ہیں. بڑی بڑی این جی اوز کھول کر چائلڈ لیبر اور خواتین کے حقوق یا انسانی حقوق پر سیمینارز کرتے نظر آتے ہیں خوب رقمیں بٹورتے ہیں لیکن اپنے گھروں میں نو عمر بچوں کو بطور ملازم کام کرواتے ہیں.عورتوں اور بچیوں کو محض جنسی تسکین کا سامان سمجھتے ہیں انسانی حقوق تو دور کی بات خود اپنے زمہ جو حقوق واجب الفرض ہیں وہ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرتے. جہاں کہیں کوئی دلیل یا حوالہ ہمیں غلط قرار دے تو فورا مزہب کے حوالے بیچ میں لا کر قصہ ہی تمام کر دیتے ہیں.وہ مزہب جسے روز مرہ زندگی کے معاملات میں تو قطعا لاگو نہیں کیا جاتا لیکن اپنی جان پھنسنےکے بعد فورا اس کا خیال آ جاتا ہے اور جھٹ سے اس کے قوانین دوسروں پر لاگو بھی ہو جاتے ہیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ منافق اور منافقت کے خلاف سب سے زیادہ شور بھی ہم لوگ ہی مچاتے ہیں.جسے دیکھ کر چور مچائے شور کی مثال فورا زہن میں آتی ہے. قوموں اور معاشروں کی ترقی کا راستہ حقیقت پسندی خود احتسابی اور اعلی اخلاقی معیار سے وابستہ ہوتا ہے.ڈبل سٹنڈرڈ یعنی دہرے معیار والے معاشرے یا قومیں دائروں میں ہی گھومتے رہتے ہیں اور دائروں کے بڑھنے کو سفر کے کٹنے کی علامت یا فاصلے کی طوالت میں کمی سمجھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں.اگر آپ بھی ان میں سے کسی عادت کا شکار ہیں تو اس سے نظریں مت پھیریں بلکہ اسے دور کرنے کی کوشش کیجئے. دہرا پن معاشروں کو سراب کی کشش میں اپنے پیچھے لگا کر صرف وقت اور نسلیں ضائع کرتا ہے. آئیے اس اجتماعی دہرے پن سے نجات حاصل کریں.