تحریر : زکیر احمد بھٹی ہم اشرف المخلوقات تو ہے ہی مگر ہم نجانے کتنے بے حس ہو چکے ہے ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے شاید ہم جو نظر آتے ہیں وہ نہیں ہیں اور نہیں نظر آتے وہ ہے یہ ہماری سوچ ہے یا ہم نے یہ سوچ بنا لی ہے اس کا اندازہ مجھے آج ہوٹل میں فیملی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ہوا ہماری ٹیبل کے سامنے والی ایک ٹیبل پر دوسری فیملی کھانا کھا رہی تھی تو میری نظر اس ٹیبل پر کھانے والی فیملی پر پڑی اور میں بہت گہری سوچ میں پڑ گیا اتنی گہری سوچ میں کہ مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ میرے ساتھ میری فیملی بھی ہے مجھے تب ہوش آیا جب میری بیگم نے کہا کہ ” کیا ہوا کس سوچ میں پڑ گئے ہیں آپ۔۔۔؟” تو میں نے آس پاس دیکھا کہ کافی ٹیبل خالی ہو چکے تھے تو ہم نے بھی کھانے کے بعد گھر کی راہ لی گھر پہنچ کر بھی میری سوچ سامنے والے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے آدمی پرہی تھی اور سوچ ہی رہا تھا کہ آخر میں نے اس شخص کو کہا ںدیکھا ہے اور کیا وہ مجھے یا میں اسے جانتا ہوں اسی سوچ میں پتہ نہیں رات کے کس پہر میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا پھر صبح نماز کے وقت میری آنکھ کھلی تو میری بیگم نے کہا ”کیا ہوا جی آپ کو سردی میں بھی پسینہ آ رہا ہے ” میں ایک بار پھرسوچوں میں گم ہونے لگا اتنے میں میری بیگم صاحبہ بولیں ” آپ رات سے کافی پریشان ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے۔۔۔ اور ابھی بھی آپ خواب میں کسی سے باتیں کر رہے تھے بھئی ہمیں بھی تو پتا چلاکیا پرابلم ہو رہی ہے۔۔۔پلیز بتائیں ناں ” میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیگم صاحبہ کو بتایا کہ مجھے خواب کیسا آیا ”میں نے کچھ عرصہ سے کیا غلط کیا ہے۔
کیا کسی کی حق تلفی تو نہیں کی ۔۔۔؟میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر میں نے کیا غلط کیا ہے ۔۔۔ کس کی حق تلفی ہوئی۔۔۔۔ میں تو سبھی سے پیار کرتا ہوں سبھی کا خیال رکھتا ہوں میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ اگر رب کائنات نے مجھ پہ کرم کیا ہے تو پھر میں کیوں نہ خالق کائنات کی مخلوق سے محبت کے رنگ بکھیروں۔۔ اسی کے دیئے ہوئے مال سے اپنے اردگرد عزیزو اقارب ،دوست احباب کے مصیبت اور کٹھن حالات میں مدد کروں جب مجھے نوازا گیا ہے تو میں اپنے پیاروں سے کیوں پیچھے ہٹوں میری ہمیشہ سے یہ آرزو رہی ہے کہ میں اپنی بساط کے مطابق اوروں کے دکھ درد میں شریک ہو سکوں۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔ نجانے۔۔۔کیوں مجھے ایسا خواب آیامجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔ میرا ذہن مائوف ہو رہا ہے درد سے سر پھٹ ر ہا ہے ۔۔۔ رات بھر میں انگاروں پہ لیٹا رہا ۔۔۔ ایک ایک لمحہ مجھے صدیوں پہ محیط نظر آیا۔
بیگم نے میرا سر دباتے ہوئے لیٹ جانے کو کہا۔۔ شریک ہمسفر جیسے جیسے سر دبائے جا رہی تھی مجھے عجیب سی راحت اور خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔۔دماغ ہلکا محسوس ہونے لگا پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں اپنی شریک حیات کی زلفوں کا اسیر ہوکر خواب خرگوش کے مزے لینے لگا جب آنکھ تو ایسے لگا جیسے میں کسی کلینک میں ایڈمٹ ہوں اتنے میں ڈاکٹر خرم بھی آ گئے جو اس کلینک کے انچارج اور علاقے کے معروف و ہر دل عزیز اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے ان کی شہرت ایک اچھے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ رحم دلی بھی تھی میں نے ڈاکٹر خرم صاحب سے پوچھا ” مجھے کیا ہوا ہے کیوں لایا گیا مجھے یہاں ” ”میں نے کچھ ضروری ٹیسٹ کروائے ہیں پ کی رپورٹس آ چکی ہیں الحمدللہ آپ ٹھیک ہیں کوئی خاص بیماری نہیں ہے”ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے اتنے میںمیری بیگم فرزانہ بھی آ گئیں اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھنے لگی ”کوئی سیریس مسلہ تو نہیں میرے شوہر کو” ”نہیں نہیں قیصر خان صاحب کو کوئی اہم پرابلم نہیں ۔۔۔البتہ انہیں ۔۔ ذہنی دبائو اور کسی پریشانی کا سامنا ہے ان کی سبھی رپورٹس کلیئر ہیں ”ڈاکٹر صاحب نے بتانے کے ساتھ ساتھ فرزانہ سے بھی سوال کردیا ”گھر میں کوئی جھگڑا،کوئی تنائو۔۔۔ میرا مطلب کوئی۔۔۔۔” بات کاٹتے ہوئے میری بیوی بولی ”نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ہماری ازدواجی زندگی ایک آئیڈیل زندگی ہے اچھا بزنس ہے اللہ کا دیا سبھی کچھ ہے اور پھر میرے شوہر تو ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں ”۔
ڈاکٹر خرم نے پھر سے پوچھا ” کیا آپ بتا سکتی ہے کہ آپ کی فیملی آئو ٹنگ پہ گئی ہو اور وہاںآپ نے کوئی خاص بات نوٹ کی ہو” ” جی جی ڈاکٹر صاحب ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ہم ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے تو قیصر صاحب اس وقت کھانا کھاتے ہوئے کسی گہری سوچ میں کھو گئے تھے ایسا تب ہوا جب ساتھ والی ٹیبل پہ ایک دوسری فیملی کھانا کھا رہی تھی قیصر صاحب نے ان کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہے تھے” ”کیا آپ اس فیملی کو جانتی ہیں ” ڈاکٹر خرم نے سوال کیا ”نہیں تو ۔۔۔۔میں نے اس فیملی کو پہلی بار دیکھا تھا” میری بیگم نے بتایا ”ڈاکٹر خرم ۔۔۔ آپ اس فیملی کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں ۔۔”میری بیوی نے ڈاکٹر سے پوچھا ”معذرت چاہوں گااس فیملی کے ساتھ ۔۔۔ آپ کے شوہر کا کوئی ۔۔۔تعلق۔۔۔کوئی سنہری یادیں وابستہ ہوں۔۔۔ آپ میری بات سمجھ رہی ہیں ناں ۔۔۔بیگم قیصر۔۔؟ڈاکٹر خرم کے بتانے پہ میری بیگم پریشانی کے عالم میں خاموش ہو گئیں۔
”آپ پرشان نہ ہوں میں میڈیسن لکھ رہا ہوں ٹریٹ منٹ شروع کریں سب اچھا ہوجائے گا” ڈاکٹر نے کہا چند روز کی ٹریٹ منٹ سے میری طبیعت بحال ہو گئی ۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ میری بیوی اب گھر میں خاموش خاموش سی رہنے لگی ہے میں نے پوچھا ”بیگم کیا بات ہے میں دیکھ رہا ہوں کہا آپ کچھ کھوئی کھوئی سی۔۔۔ چپ چپ سی رہنے لگی ہیں کیا ہوا” بڑے غصہ سے” مر نہیں گئی ابھی زندہ ہوں ”بڑبڑاتی ہوئی کمرے باہر نکل گئیں میںسمجھ نہیں سکا کہ فرزانہ کو آج کیا ہوا کبھی بھی اتنے غصہ میں نہیں دیکھا پریشانی کے عالم میں گھر سے باہر چلاگیا کچھ دیر بعد واپس آیا مگر فرزانہ کا غصہ بام ثریا کو چھو رہا تھامجھے دیکھتے ہی غصے کا ٹمپریچر بڑھا اور چیختے ہوئے بولیں۔
”میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی جب تمہارے پلو باندھی گئی تب سے میری زند گی اجیرن بن کر رہ گئی مجھے کیا پتا تھاکہ مجھے نہ کردہ گناہوں کی سزا ملے گی میرا تو بیڑاہی غرق ہو گیا ۔۔۔جس نے ہماری شادی کروائی ہے اللہ تباہ ہو برباد کرے، اس کا ستیاناس ہو” میں آگے بڑھا اور غصہ کی حالت میںدو تین تھپڑرسید کر دیئے ہماری ہنگامہ آرائی اور شورشرابہ سے میری ساس نے دونوں کو سمجھا کر چپ کرادیا اور دونوں کو ماں بولتی ہوئی اپنے کمرے میں واپس چلی گئی اگلے دن صبح صبح ہی ایک ہمسائی میری ساس کی طبیعت پوچھنے آ گئی دوران گفتگو میری ساس نے ہمسائی سے گزشتہ روز والا سارا واقعہ سنا دیا ہمسائی بولی ”ارے بہن یہ تو کوئی مسلہ ہی نہیںمیرے ایک جاننے والے سید کمال شاہ ہیں وہ دم درود کریں گے تو سب بہتر ہو جائے گا انشاء اللہ” اتنے میں میری ساس نے مجھے کو آواز دی ”قیصربیٹا تیار ہو جائیں ایک کام کے سلسلہ میں کہیں جانا ہے”۔
میں کچھ لمحوں میں تیار ہونے کے بعد اپنی ساس کے خدمت میں پیش ہوتے ہوپوچھا ‘امی جان میں تیار ہوں ۔۔۔ مگر امی ۔۔۔ آپ نے یہ تو بتا یا ہی نہیں کہ ہم نے کہاں جانا ہے ” ہمسائی بولی”بیٹا قیصر۔۔۔ ہم نے شاہ جی کے پاس جانا ہے بڑے پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ۔۔ دنیا جانتی ہے انہیں ۔۔۔ ان کا دم سر چڑھ کر بولتا ہے” کچھ دیر بعد ہم چاروںشاہ جی کی خدمت میں پیش ہو چکے تھے سید کمال شاہ جی نے مجھے دیکھتے ہی کہا یہ لڑکا آج کل کسی اور کے خیالوں میں کھویا رہتاہے۔۔۔” شاہ جی کی بات کاٹتے ہوئے فرزانہ بولی ”پتا نہیں وہ کون چڑیل ہے جو میرے شوہر کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی موت بھی نہیں آتی ایسے لوگوں کو جو کسی کا گھر برباد کرتے ہیں ” ” فرزانہ بیٹا ایسا نہیں کہتے ” میری ساس بولی ” اللہ پہ بھروسہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ ۔۔ کسی کو بددعائیں نہیں دیا کرتے ” شاہ جی ”نیاز تیار کروائیں اور بچوں میں تقسیم کریں ۔۔۔سب اچھا ہوجائے گا”۔
اگلے روز فرزانہ نے چاول پکائے اور بچوںمیں بانٹنے لگیںاتنے میں ایک فقیر بھی آ گیا میری ساس نے اسے بھی چاول دئیے اور کہنے لگی بابا جی میرے بیٹے کے لئے دعا کیجئے اللہ پاک میرے بیٹے کو صحت تندرستی عطا فرمائے ان کی ازدواجی زندگی میں مسرتیں پیدا ہوں ”جب چاول تقسیم کئے جارہے تھے تب میںبھی ان کے ساتھ ہی تھافقیر کو دیکھتے ہی میرے دماغ کے دریچے کھلتے گئے اور مجھے بہت کچھ یاد آنے گا ”یہ فقیر وہی ہے جو ہمیں اس روز ریسٹورنٹ میں ملا تھاخواب میں بھی مجھے یہی نظر آیا تھا کہ میں نے کس کی حق تلفی کی ہے ۔۔۔تو یہی وہ انسان ہے جس کو میں ہر روز کچھ نہ کچھ دیا کرتا تھا مجھے افسوس اس بات پہ ہو رہا تھا نہ جانے کتنے لوگوں کی حق تلفی کر کے میں اس فقیر کو دیتا رہا جو ایک اچھے ریسٹورنٹ کا کھانا کھا سکتا ہے وہ فقیر نہیں ہو سکتاایسے لوگ ہی حق داروں کا حق چھینتے ہیں” میری بیوی فرزانہ اپنے رویہ پہ نادم ہو رہی تھیںذرا سے شک نے ہنستے مسکراتے گھر کو دوزخ کا نمونہ بنا دیا تھا ” میں بہت شرمندہ ہوں اپنے کئے پہ مجھے بے حد افسوس ہورہا ہے ۔۔۔شک کرنے کی بجائے مجھے کھل کر آپ سے بات کرنا چاہئے تھا۔۔۔ میں نے آپ کوصرف شک کی بنا پہ دکھ دیا ”فرزانہ بولے جا رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی ایک لڑی رم جھم کی طرح بہہ رہی تھی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
میرے پائوں پکڑتے ہوئے بولیں ”سرتاج ۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیجئے۔۔۔مجھے شک کی بجائے رشک کرنا چاہئے آپ پہ” ”میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں دونوں کی خوشیاں اور مسرتیں اسی میں پنہاں ہوتی ہیں جب دونوں پہیے ایک ساتھ روانگی اور ایک ردھم سے چلیں ۔۔ تم میری شریک سفر ہو تمہارے شک نے ہمارے گھر میں بے سکونی کا ماحول بنا دیا تھا رب کائنات کا شکرہے کہ تمہارا شک ۔۔۔صرف شک ہی تھا اس میںحقیقت نہیں تھی ۔۔۔ اور پھر تمیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ” فرزانہ نے خوشی کے آنسوئوں اور مسکراتے ہوئے میرے کندھے پہ سر رکھ دیا۔