تحریر: نمرہ آفتاب دین اسلام اپنے ماننے والوں کے لئے آسانیاں کرتا ہے لیکن آج کے دور کا مسلمان بھی اپنے لئے مشکلات پیدا کر کے خود کو دین سے دور کر لیتا ہے۔ معاشرے میں غریب ہونا بہت بڑا المیہ ہے کیونکہ غریب کو نہ تو دو وقت کی روٹی عزت سے مل سکتی ہے اور نہ ہی غریب لڑکیوں کی شادی خوشی سے ہو سکتی ہے۔ میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی ہوں۔ والدین کے پاس ایمان کی دولت کے ساتھ اتنا تھا کہ ہم دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ کھاکر گزارہ کر رہے تھے۔
والد صاحب کی مزدوری کی حلال کی کمائی سے میری پرورش ہوئی۔ہم نے جو ملا اسی پر گزارہ کیا کبھی بھی والدین سے شکوہ نہیں کیا۔جب میری شادی کی بات چلنے لگی تو جتنے بھی رشتے آنے لگے سب کا مطالبہ جہیز کا تھا۔اللہ نے مجھے شکل و صورت اچھی دی سب کو پسند آتی لیکن غربت ہر رشتہ طے ہونے میں آڑے آتی۔درجنوں رشتے آیے لیکن کسی نے بھی ہاں نہیں کی کیوںکہ میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی تھی ۔جہیز نہ دے سکناہماری مجبوری تھی۔میرے ابو کے ایک دوست جو فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ایک دفتر میں کام کرتے تھے ابو سے ملے اور پریشانی کی وجہ پوچھی۔پہلے تو ابو نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن پھر سب بتا یا کہ بیٹی جوان اور شادی کے لئے رشتوں کی لمبی لائنیں اور سب جہیز کی ڈیمانڈ کرنے والے۔ابوکے دوست نے انہیں حوصلہ دیا۔
Dowry
ایک ہفتے بعدابو کے وہی دوست گھرآئے ابو گھر نہیں تھے وہ ایک لفافہ چھوڑ گئے۔شام کو مزدوری سے واپسی پر ابو نے لفافہ کھولا تو اس میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے جہیز کی مد میں رقم تھی ۔ابو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ضرورت کا سامان خرید کر میری رخصتی کر دی۔شادی کے بعد میں نے ایک دن ابو سے سوال کیا کہ میری شادی کے لئے جس این جی او نے رقم دی تھی اس کی تفصیلات کیا ہیں تو ابو نے بتایا کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی رفاہی و فلاہی این جی او ہے۔کسی بھی قدرتی آفت،حادثات میں امداد،ریلیف و ریسکیو کے لئے سب سے پہلے پہنچنا ان کا اعزاز ہے۔پاکستان کے ہر ضلع میں انکا دفتر ہے اور مستحق و غریب خاندانوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔
لوگ بھی ان پر اعتماد کرتے ہیں۔تھر میں قحط آیا تو فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف وہاں خود پہنچے اور جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید نے بھی خود امدادی کام کی نگرانی کی۔لاکھوں رضاکار رکھنے والی این جی اوز کو اقوام متحدہ نے بھی تعریفی اسناد دی ہیں۔گزشتہ برسوں جب سیلاب آیا تھا تو سکھر سندھ میں امریکی سفارتخانے کے افراد نے بھی ان کے کام کو دیکھ کر امدادی سامان فلاح انسانیت والوں کے حوالہ کر دیا تھا۔گزشتہ برس کے سیلاب میں جب کشتی میں سوار لوگ ملتان کے کسی علاقے میں ڈوبے تھے تو اسی این جی او کے رضاکاروں نے پاک فوج کیساتھ ملک ریسکیو کیا تھا اور نئی نویلی دلہن کو زیورات تک واپس لوٹا دیئے تھے۔
ابو کی باتیں اور واقعات میں نے غور سے سنیں اور میں سوچ رہی تھی کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتے ہیں۔خدمت خلق انکا شیوہ ہے۔غریب کے آنسو پونچھنے،سفید پوش کی رات کی تاریکی میں مدد یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔رمضان کا مبارک و مقدس مہینہ اختتام پذیر ہے ۔صدقات و زکواہ کے ذریعہ نیکیاں کمانے کا موسم بہار ہے۔لوگ دیتے ہیں خرچ کرتے ہیں معلوم نہیں مستحقین تک پہنچتا ہے یا نہیں لیکن کم از کم میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کو دیا جانے والا ایک روپیہ بھی ضائع نہیں جائے گا۔حکومت نے تھر میں کچھ نہیںکیا لیکن فلاح انسانیت والے 850کنویں مکمل کر چکے ہیں جن پر کروڑوں خرچ ہوئے ۔حکومت کا بجٹ کاغذی ہوتا ہے لیکن ان کا کام سامنے ہے۔قوم کو چاہئے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی بھر پور مددکرے۔انکا دفتر لاہور میں چوبرجی چوک مرکز القادسیہ میں ہے۔
FIF-Logo
انکا رابطہ نمبر 042222555313 ہے۔اس کے علاوہ ہر شہر میں رضاکار موجود ہیں۔بات جہیز سے شروع کی تھی اسی کو آگے بڑھاتی ہوں ۔ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی لڑکیاں اسی وجہ سے بن بیاہی رہتی ہیں کہ باپ کے پاس انہیں دینے کیلئے جہیز نہیں ہوتا اور اگر شادی سر پر آہی جائے تو جہیز کی شرط پوری کرنے کیلئے باپ کو بعض اوقات روپیہ حاصل کرنے کیلئے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور وہ باپ بے چارہ رشوت’ جعلسازی’ دھوکہ فریب’ خیانت جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اگر کوئی باضمیر باپ ہے تو وہ اپنے آپ کو ناجائز ذرائع سے بچا کر قرض کے ادھار کے شکنجے میں جکڑنے پر مجبور ہے اور اوپر سے سب سے گھٹیاحرکت یہ کہ لڑکی کا شوہر یا اس کے سسرال کے لوگ جہیز پر نظررکھتے ہیں اور توقعات باندھی جاتی ہیں کہ دلہن اچھا ساجہیز لائے گی جسے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے اور ان کی تعریف بھی حاصل کی جاسکے۔ افسوس کہ معاشرے کی اصلاح و تربیت کاکام جو کسی بھی قوم کی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کسی بھی شمارو قطار میں نظر نہیں آتا۔ ذہنی تربیت اور کردار سازی کا کام خرافات میں ایسا گم ہوا ہے کہ اس کا نام ایک مذاق معلوم ہوتا ہے۔
جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔ اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لڑکے والے اگر اس میں سے کوئی چیز استعمال بھی کریں گے تو اس کے لیے لڑکی کی آزادانہ اجازت انہیں درکار ہو گی۔
Marriage
دباؤ ڈال کر اجازت لینا، جائز نہیں ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔ خدارا اس امر سے معاشرے کی جان چھڑائی جائے اور غریب کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ غریب والدین بھی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنا ایک مقام بنا سکیں اور معاشرے کی ترقی کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی ترقی میں خاطر خواہ کردار ادا کر سکے۔