ہم جہیز کے خلاف بچپن سے جو کچھ سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آرہے ہیں ان میں زیادہ تر جہیز لینے والوں پر غصہ، گالی گلوچ، نفرت، لعنت ملامت اور فتوے بازیوں کا اظہار ملتا ہے۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہیز ایک ایسی سماجی برائی ہے جو نہ تو اچانک پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ اچانک ختم کی جا سکتی ہے۔ بلکہ اس کی جڑیں ہمارے سماج میں بہت دور تک پہنچی ہوئی ہیں۔ جہیز کا زہر ملک، قوم، تہذیب، مذہب، برادری، رسم ورواج اور تاریخ میں اتنا اندر تک پھیلا ہوا ہے کہ اس کو صرف تقریر اور لعنت و ملامت کرکے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
خوب یاد رکھیے جہیز کا ناسور نہ تو قانون سے ختم ہوگا، نہ فتوؤں سے ختم ہوگا، نہ جلسوں سے ختم ہوگا،نہ کالموں اور اداریوں سے ختم ہوگا، نہ اشتہار اور نعروں سے ختم ہوگا اور نہ سماجی بائیکاٹ اور سخت اقدام سے ختم ہوگا۔ شاید آج تک یہ تحقیق کرنے کوشش پوری یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں ہوسکی ہے کہ جہیز کی رسم شدت سے جڑ پکڑنے کے اسباب کیا ہیں؟جب تک مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوگی، اس کی دوا کس طرح ممکن ہے؟ بات یہ ہے کہ جہیز کی وجہ سماجی بھی ہے، معاشی بھی ہے، نفسیاتی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔
ذرا سوچیے کہ لڑکے کے والدین کیا کہتے ہیں؟ یہی نا کہ بیٹے کی تعلیم میں بہت خرچ کیا ہے؟پڑھاتے پڑھاتے ہماری کمر ٹوٹ گئی ہے۔اب آگے اس کو کھڑا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔یعنی اگر معاملے کی جڑ تک جائیں تو جہیز کا ایک اہم سبب تعلیم کا کمرشیلائزیشن بھی ہے۔
جہیز کے حوالے سے سماج کی سوچ کیا بنی ہوئی ہے؟جہیز کو سماجی حیثیت طے کرنے کا پیمانہ بنادیا گیا ہے۔لڑکی والوں کی بھی ناک کا مسئلہ ہے کہ وہ کیا کیا دینے کی حیثیت رکھتے ہیں؟ سماجی ڈھانچہ ایسا ہے کہ لڑکیوں کا وراثت میں حصہ لینے پر سماج انھیں لعن طعن کرتا ہے۔ایسے میں جہیز کو ہی وراثت کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔
آج معیارِ زندگی کا تصور کس طرح گاڑی، بنگلہ اور دیگر آلائشات و تعیشات سے وابستہ ہوگیا ہے؟ چناں چہ خوابوں کی یہ جنت جہیز میں ہی ممکن نظر آتی ہے۔
یہ تو بس مثال کے لیے چند اسباب کی طرف اشارے کیے گیے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جہیز کے عام ہونے کے پیچھے بہت ہی الجھی ہوئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی گتھیاں ہیں، جنھیں ٹھنڈے دل سے اور یکسوئی کے ساتھ سلجھانے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہیز کی غلاظت سے سماج کو صرف اور صرف ایک دردمندانہ، مخلصانہ،محبت آمیز اور قربانیوں سے لبریز اصلاحی تحریک کے ذریعے ہی پاک وصاف کیا جاسکتا ہے۔ایسی اصلاحی تحریک جو محض وقتی نہ ہو بلکہ بہت ٹھہراؤ کے ساتھ جاری رہے۔شاید تین چار دہائیاں درکار ہوں گی۔
اس وبا کے خاتمے کے لیے اچانک،مصنوعی اور ہنگامہ خیز آندولن کا نتیجہ صفر ہوگا۔بلکہ اس کے لیے دھیرے دھیرے صبر کے ساتھ، استقامت کے ساتھ، محبت و ہمدردی کے ساتھ مرحلہ وار اور مسلسل کوشش کرنی ہوگی اور جہیز کے تمام عوامل کو دریافت کرکے ایک ایسا سماجی ڈھانچہ بنانا ہوگا جہاں جہیز کا رجحان پنپنے کا امکان مسدود ہوجائے۔اس کی ایک شان دار مثال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شراب بندی ہے۔
تحریر : ڈاکٹر خالد مبشر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی