جہیز ضروری اور مجبوری

Dowry

Dowry

ماں باپ بڑی محبت اور محنت مشقت کیساتھ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے بڑا کرتے ہیں ۔بچیوں کے پیدا ہوتے ہی ما ں باپ کو ان کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس فکر میں بھی اضافہ ہو تاجاتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ایک غریب خاندان کے لیے اپنی بیٹی کا جہیز تیار کرنا ہی ایک بڑا چیلنج بن گیاہے۔ جہیز ضروری مجبوری یا لعنت اس مسئلے پر میں نے ایک سو سے زائد افراد کی رائے لی ہے۔ 80 فیصد نے جواب دیا کہ آج کے دور میں جہیز ایک مجبوری ہے۔ اور کچھ نہ کچھ ضرورت بھی بن چکی ہے۔ دیکھا جائے تو اس ماحول میں تو جہیز ضروری اور مجبوری بن چکا ہے۔

جہیز جو نہیں دے سکتے وہ بچیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہوپاتے اور ہمارے رسم رواج اور جہیز کلچر کی سولی پر لٹک جاتی ہیں۔ اور بہت سے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بچیاں نفسیاتی مریض اور پاگل تک ہوجاتی ہیں اس کے علاوہ ایسے کیسزبھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکیاں اسی غم کو دل کو لگائے اور بالکل دل برداشتہ ہو کر خودکشی جیسا اقدام کر بیٹھتی ہیں۔ابھی چند ماہ پہلے 4 بہنوں نے اجتماعی خودکشی کی جس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ والدین غربت کی وجہ سے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کررہیں تھے چار جوانی کی حد پار کر کے بالوں میں چاندی اترتی عمر میں پہنچی ہوئی بیٹوں کا اس مہنگائی کے دور میں جہیز کہاں سے تیار کرتے۔

Wedding

Wedding

والدین اور بچیاں دونوں نفسیاتی مریض بن چکے تھے ۔اور آخر کار بیچاری لڑکیاں اتنا دل برداشتہ ہوئیں کہ نوبت اجتماعی خودکشی تک جاپہنچی اب کون ذمہ دار تھا والدین ۔حکومت یا ہم عوام(معاشرہ) والدین جو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرپاتے تھے وہ کیسے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔حکومت وقت جن کے پاس عوامی مسائل کے لیے وقت ہی نہیں بچا صوبائی وزراء کے صرف لاہور سے ساہیوال تک دورے پر 3 کروڑ اڑا دیے جاتے ہیں اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ جو عوامی مسائل اور لوگوں کی مجبوریوں سے بے خبر ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے عوام کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں حکمران تو وہ بھی تھے حضرت عمر جو ہر وقت صرف اس لیے پریشان رہتے کہ میری سلطنت میں اگر کوئی بھوکا مر گیا تو رب کے ہاں جواب دینا پڑے گا۔اس جواب دہی کے احساس نے ان سے راتوں کی نیند تک چھین لی تھی وہ رات بھر علاقے میں نکلتے تاکہ لوگوں کے دکھ درد جان سکیںاور عوام کی رسائی براہ راست حکمرانوں تک موجود تھی۔

لیکن آج کے دور میں وزراء ہی کو وزیراعظم سے ملنے کے لیے کئی دن درکار ہوتے ہیں۔ اور ہم عوام ایک بہت بڑا کردار ہمارا اپنا ہے۔ ہم خود اگر اپنے اس پاس خیال نہیں رکھتے کون کس حال میں ہے آج تو ہماری اپنی حالت یہ ہے کہ ہر ایشوپر حکومت وقت کو موردالزام ٹھہرا کر نکل جاتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کااحساس ختم ہوکر رہ گیا ہے ہمارے اس پاس لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں بچیاں جوان ہیں لیکن شادی صرف اس لیے نہیں ہو پارہی کہ غریب خاندان جہیز کا بندوبست نہیں کر پارہا۔ یہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے ہم اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اپنے محلے کی سطح پر فلاحی سوسائٹی قائم کر کے ان غریب بہنوں کی شادی کا بندوبست کردیں اور ان کے والدین کے کمزور کندھوں کا بوجھ ہلکا کر دیں۔نوجوان یہ کام بڑے اچھے اندازسے اپنے محلوں کے بزرگوں کی سرپرستی میں سرانجام دے سکتے ہیں۔ اور چند علاقوں میں یہی مثالیں موجود ہے ہیں کہ نوجوان اپنی مدد آپ اپنے محلے کے بزگوں کی سرپرستی میں یہ کام سرانجام دے رہیں ہیں۔ ہم ان این جی اوز اوران کے ورکرز کو سلام پیش کرتے ہیں جو معاشرے میں والدین کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے بچیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے ایسے افراد بھی معاشرے میں موجود ہیں جو ہر سال بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر ہر علاقے میں صاحب حیثیت لوگ مل کر اجتماعی شادیاں کروانے کا عہد کر لیںتو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوگا اس کے علاوہ حکومت کو بھی ایک منصوبہ بنانا چایئے کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر اس حوالے سے کمیٹاں قائم ہو اور ایسے منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں اور ہمارا عوام کا ہی فرض ہے کہ جہیز مانگنے اور اس پر مجبور کرنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر فرد کو اس بات کا احساس دلایا جائے۔ اصل میں والدین جہیز دینا اس لیے بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ لڑکے والے بعد میں لڑکی کو طعنے دیے دیے کر پریشان کیے رکھتے ہیں اس لیے اس کلچر کی ایک بڑے پیمانے پر حوصلہ شکنی کا سلسلہ ہمیں شروع کرنا ہے جو معاشرے سے اس کلچر کو جڑسے اکھاڑ پھینکے اور آئیے ہم اپنے گھر سے اس وباء کے خاتمے کا آغاز کریں۔


Umar Farooq

Umar Farooq

تحریر:عمرفاروق سردار