پاک پتن (جیوڈیسک) پیر کے روز پاکستانی میڈیا پر پاک پتن کے ضلعی پولیس آفیسر رضوان گوندل کے تبادلے کے حوالے سے ایک تنازع شروع ہوا جس کا تعلق پاکستان کی خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا سے ہے۔
پاک پتن پولیس کے ترجمان سجاد علی أنور کے مطابق پولیس کی ایک ٹیم نے 23 اگست کی رات کو مانیکا کی کار اس وقت ایک ناکے پر روکنے کی کوشش کی جب وہ پیر غنی کی طرف جا رہے تھے۔
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ مانیکا نے اپنی کار پولیس ٹیم کے روکنے کے باوجود نہیں رکی اور جب پولیس نے پیچھا کر کے انہیں روک لیا تو انہوں نے بدتمیزی کی۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مانیکا نے ڈی پی او کو ٹیلی فون کر کے واقعہ کی شکایت کی۔
بعد ازاں حکام نے ڈی پی او رضوان گوندل سے کہا وہ ذاتی طور پر مانیکا کے ڈیرے پر حاضر ہو کر ان سے معافی مانگیں۔ لیکن ڈی پی او نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ جمعے کے روز وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدارنے ڈی پی او پاک پتن گوندل اور دوسرے حکام کو طلب کیا اور اس واقعہ کے متعلق بات چیت کی۔
پیر کے روز جب رضوان گوندل کے تبادلے کے احکامات جاری ہوئے تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ خبر تیزی سے گردش کرنے لگی کہ انہیں خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا کی کار روکنے اور ان کے ڈیرے پر جا کر معافی نہ مانگنے کی بنا پر ٹرانسفر کیا گیا ہے۔
ان خبروں کے بعد پنجاب پولیس کی جانب سے ایک وضاحتی ٹویٹ سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا کہ ڈی پی او گوندل کا تبادلہ ان کے ایک شہری کے ساتھ غیر مناسب رویے اور حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ ‘شہری‘ کون تھا۔
پولیس کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب کے انسپکٹرجنرل ڈاکٹر سعید کلیم امام نے گوندل کا تبادلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں کیا بلکہ اس لیے کیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک شہری کے معاملے میں متعدد بار غلط بیانی سے کام لیا۔
پولیس حکام نے معاملے کو سوشل میڈیا پر لانے کے حوالے سے گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہے۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن نے ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت پولیس کو سیاسی دباؤ سے پاک کرنے پر یقین رکھتی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے رضوان گوندل کو کسی اور مسئلے پر بلایا تھا نہ کہ خاور مانیکا کی کار روکنے کی بنا پر۔ن کا یہ بھی کہنا تھا کہ گوندل کے ٹرانسفر کے لیے وزیر اعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایت نہیں کی اور یہ ٹرانسفر آئی جی پولیس نے خود اپنی صوابدید پر کیا ہے۔