تحریر : حفیظ خٹک قوم کی بیٹی کی باعزت رہائی کیلئے کام کرنے جب بھی مایوس ہوتے ہیں تو ان کی ہمت ڈاکٹر فوزیہ صدیق اور ان سے بھی بڑھ کر ان کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی بڑھاتی ہیں۔آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے وہ یہی کہا کرتی ہیں کہ اس (اللہ) سے امید رکھو اور اپنی کاوشیں جاری رکھو ،وہ وقت آئے گا جب آپ سب خوشی کے ساتھ مجھے یہ بتائیں گے کہ نانی اماں (عصمت صدیقی صاحبہ ) ہماری بہن آ رہی ہے۔
2017کے آخری ایام میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ جب عافیہ موومنٹ کے کارکن کچھ مایوس سے ہوئے، اپنے غم و غصے کا اظہار اکثر آپس میں کرتے اور کھبی والدہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جنہیں سب کارکنا ن پیار سے نانی اماں کہا کرتے ہیں،ان کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے، یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے گذشتہ برس بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔اپنی معمولات زندگی میں سے کچھ وقت نکال کراس کوشش میں لگ جاتے اور یہ سمجھتے کہ ان کی محنت سے قوم کی بیٹی واپس آجائے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچے احمد و مریم کو وہ دیکھتے تو کارکنان ایسے موقع پر اپنی اندر کی تمام تر جذباتی کیفیات کو ایک جانب رکھ کر انہیں تسلی دیتے ہوئے کہتے کہ بہت جلد قوم کی بیٹی واپس آئی گی۔احمد و مریم کی اندرونی کیفیات خدا جانتا ہے ،اس لمحے وہ مسکرا دیتے اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔
نانی اماں کے گرد کچھ کارکنان جمع ہوئے جن کی تعداد روز مرہ کی تعداد سے قدرے زیادہ تھی۔وہ سبھی باوجود کوشش کے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور نانی اماں کے سامنے اپنے دل کی ساری باتیں نکال کر دل و دماغ کو ہلکا کر گئے۔سب سے زیادہ غم و غصہ حکومت وقت پر ہی رہا ،سبھی کا یہ کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی اور ہے کہ انہوں نے متعدد بار وعدے کئے ، یہاں تک کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی مریم کے متعلق یہ کہا کہ عافیہ کی مریم ،میری مریم کی طرح ہے،مجھے اپنی مریم کی طرح ہی عزیز ہے لیکن ان کا یہ کہنا مخص کہناہی رہا ۔اگر وہ قوم کی بیٹی کو رہائی دلوا کر واپس لے آتے تو آج ان کے حالات ایسے نہ ہوتے ۔انہیں تو قدرت نے سزا ہی وعدے کو پورا نہ کرنے کی دی ہے۔اک خاتون کارکن نے کہا کہ وہ تو اب بھگت رہے ہیں اور انہیں تو اپنے وعدے کا آخرت میں بھی جواب دینا ہوگا ۔اب جو یہ موجودہ وزیر اعظم ہیں ان کا حال دیکھو،یہ تو ابھی بھی یہ کہتے ہیں کہ اصل وزیر اعظم تو نواز شریف ہی ہیں ۔انہیں اپنے آپ کا اس ملک کا کہ جس کی عالمی سطح پر بڑی حیثیت ہے واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے لیکن ان تمام باتوں کے باجود شاہد خاقان عباسی کو کچھ ہوش نہیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اب تک نہ آنے میں ان کابھی کردار ہے،ان کے ساتھ ان کی پوری جماعت کا پوری حکومت کا کردار ہے۔ نانی اماں بتائیں ہم کیا کریں؟
اک اور طالبعلم کا کہنا تھا کہ ہم اپنی یونیورسٹی میں قوم کی بیٹی کا نام لیتے ہیں،ان کی رہائی کیلئے مختلف نوعیت کے مقابلے کراتے ہیں،دیگر طالبعلموں و اساتذہ تک کو بتاتے ہیں ،ہر فرد کی ہمدردی کے ساتھ یہ دعا دل و زبان سے نکلتی ہے کہ اللہ اسے جلد باعزت رہائی دلوادے۔ہماری ان محنتوں کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم اپنے طالبعلموں کو قوم کی بیٹی کے متعلق بتائیں اور اس کے ساتھ ہی انہیں اس جدوجہد میں ساتھ دینے کا کہیں۔ اس طالبعلم کا بھی نانی اماں سے اپنی گفتگو کے آخر میں سوال وہی تھا کہ نانی اماں بتائیں ایک اور سال گذر گیا اب ہم اور کیا کریں؟ مقامی اخبار میں صحافی کی حیثیت سے کام کرنے والے نے کہا کہ ایک جانب تو ہماری حکومت کا یہ حال ہے کہ کلبھوشن یادیو جس نے اپنی تمام تر دہشت گردیوں کا اعتراف تک کیا ہے اور جسے ہماری عدالتوں نے سزائے موت تک سنادی ہے اس کے باوجود انسانیت کے نام پر ہماری حکومت نے اس کی والدہ اورشریک حیات کو باعزت اندازمیں پاکستان بلواکر ملاقات کا اہتمام کیا ۔بھارت جو کہ از ل سے پاکستان کا محالف ہے اس کے سامنے انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اپنے ملک اقلیتوں کے ساتھ ذرا بھی انسانیت برتا ہے۔ بھارت نے اسی روز سرحد پر فائرنگ کرکے ہمارے تین جوانوں تک کو شہید کردیا اس نے ذرا بھی یہ نہ کہا کہ پاکستانی حکومت کا یہ اقدام مثبت ہے بلکہ اپنے منافقانہ عمل دنیا کے سامنے رکھ دیا ۔ ہمیں اس واقعے کا شدید دکھ ہے کہ ہماری فوجی جوان شہید ہوگئے اور ہماری حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ ایک جانب انسانیت کے ناطے وہ بھارتی دہشت گرد سے اچھا سلوک کرسکتی ہے تو دوسری جانب وہ اپنی شہری کو باعزت رہائی دلوانے کیلئے ایک خط تک نہیں لکھ سکتی،آخر کیوں؟
اس سے پہلے کے نانی امان کچھ کہتیںایک اور کارکن نے کہا کہ جب امریکی سابق صدر باراک اوبامہ اپنی مدت پوری کر کے جارہا تھا اس وقت اس نے متعدد قیدیوں کو باعزت رہائی دی۔ وہ لمحہ تھا کہ جس کو ہماری حکومت نے ضائع کیا ۔ ہماری محنتیں اس وقت بھی عروج پر تھیں لیکن ،لیکن اس وقت بھی کچھ نہیںہوا۔ نانی اماں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بلاوجہ کی محنت کر رہے ہیں۔ قوم کی بیٹی کو برس ہا برس ہوگئے ہیں لیکن آج تک اسے رہائی دلوانے کیلئے حکومت نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
اسی اثناءمیںاک سیاسی جماعت کے کارکن نے کہا کہ ہماری سیاسی جماعتیں تک اب قوم کی بیٹی کو بھلائے جارہی ہیں۔ اک وقت تھا کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں ان کی رہائی کیلئے آواز اٹھاتی تھیں لیکن اب وہ وقت بھی گذر گیا ہے۔ نانی اماں آپ دیکھیں کہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں دھرنا ہوا اس دھرنے کے مقاصد جب تک حاصل نہیں ہوئے وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے۔ اس دھرنے کی وجہ سے پورا ملک متاثر ہوا اور جس مقصد کیلئے وہ دھرنا ہوا وہ مقصد ہر پاکستانی کا تھا ،مجھے اس دھرنے کو دیکھ کر عوام کے جذبات واحساسات کو دیکھ کر تسلی و اطمینان ہوا مجھے یقین ہے کہ ملک کے دستور میں ختم نبوت کے حوالے سے تبدیلی تو درکنار کوئی یہ سوچنے کی بھی جرائت نہیں کرئے گا۔ لیکن اس دھرنے کے بعد ایک بات جو مجھے اب تلک بے سکون رکھے ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ قوم کی بیٹی کیلئے آج تک کسی سیاسی، مذہبی جماعت نے کوئی دھرنا کیوں نہیں دیا؟ ایک جماعت بھی اگر آگے بڑھے اور قوم کی بیٹی کی واپسی کے فیصلے تک دھرنا دے کر بیٹھ جائے تو مجھے یقین ہے کہ امریکہ قوم کی بیٹی کوجلد رہائی دے دیگا۔ نانی اماں نے سب کی جانب دیکھا اور پھر نظریں جھائیں، اک لمبی سانس اور آہ بھر تے ہوئے آسمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ آپ سب کی محنتوں کا پھل ضرور دے گا عافیہ واپس آئے گی ہاںوہ ضرور آئے گی اوران شاءاللہ اسی برس آئے گی۔ آسمان والا دیکھ رہا ہے وہ آپ سب کی محنتوں کا پھل ضرور دے گا،مجھے اس ذات عظیم پر یقین ہے وہ دعائیں قبول کرتاہے اورآپ سب کی کاوشیں رائیگاں نہیںجائیںگی۔آپ کو کامیابی ملے گی ضرور ملے گی ۔نانی اماں نے چند لمحے توقف کیا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ ہمت مت ہارنا محنت کرتے رہنا مجھے یقین ہے کہ وہ واپس ضرور آئے گی۔۔۔