ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کی قید میں 6200 دن سے زیادہ کا عرصہ گذرچکاہے لیکن ان کی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی یہ امت ِمسلمہ کی بے حسی کا زندہ جاگتا ثبوت ہے ایک سال پہلے کسی غیرملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر ِ اعظم عمران خان نے کہا تھا عافیہ صدیقی کو شکیل آفریدی کے بدلے رہا کروایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا شکیل آفریدی کا درجہ پاکستان میں جاسوس کا ہے اور عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی بات ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فوزیہ صدیقی کی اہم ملاقات ہوئی جس میں وزیر خارجہ نے انہیں عافیہ صدیقی کیس سے متعلق حکومتی کوششوں اور کاوشوں سے آگاہ کیا اور عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی کے آپشن پر بات چیت کی شاہ محمود قریشی نے عافیہ صدیقی کی صحت کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے قونصلر وزٹس کی ہدایت کی۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی کے انسانی وقانونی حقوق کے تحفظ کیلئے بھی پاکستانی قونصلیٹ کو ہدایت کردی ہے پھر چند روز قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قید سے باہر نکلنا چاہتی ہوں، قید کی سزا غیر قانونی ہے، مجھے اغوا کر کے امریکہ لایا گیا۔ یہ سنسنی خیز بھی انکشاف ہوا ہے کہ امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر جنسی اور جسمانی تشدد کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ انہیں ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں جس سے وہ اکثر بے ہوش رہتی ہیں۔ امریکا میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے 23 مئی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی ہے۔ قونصل جنرل نے ملاقات کے مندرجات کو خفیہ رپورٹ کی شکل دے کر حکام کے حوالے کردیا ہے جس کے مطابق ملاقات میں عافیہ صدیقی نے دوران حراست اپنے اوپر ہونے والے جنسی اور جسمانی تشدد کو بیان کیاگیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستانی اعلی سفارتی حکام کو سفارش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلیے معاملے کو ہر حال میں اعلی سطح پر اٹھایا جائے تاکہ وہ اپنی بقیہ قید کی مدت پاکستان میں پوری کرسکیں جہاں کم از کم ان کی عزت تو محفوظ ہو جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے جبکہ وہ اپنی والدہ و بچوں سے بھی ملاقات کرسکیں جن کی شکل دیکھے انہیں 8 سال ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں عافیہ صدیقی کی بدترین صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے کہ انہیں اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔امریکی ریاست ہوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و جنسی تشدد کی تحقیقات کے لئے امریکی محکمہ انصاف کو خط لکھا جائے اور ان کی جان و عزت کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ان کی کوٹھری میں امریکی جیل کے مرد اہلکاروں کو داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ جیل کے مرد اہلکار ان کے سامان پر امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹرعافیہ صدیقی پر جنسی اور جسمانی تشدد کی تصدیق ہوگئی ہے انہیں ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں جس سے وہ اکثر بے ہوش رہتی ہیں۔
رپورٹ میں پاکستانی اعلی سفارتی حکام کو سفارش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلیے معاملے کو ہر حال میں اعلی سطح پر اٹھایا جائے تاکہ وہ اپنی بقیہ قید کی مدت پاکستان میں پوری کرسکیں جہاں کم از کم ان کی عزت تو محفوظ ہو جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے جبکہ وہ اپنی والدہ و بچوں سے بھی ملاقات کرسکیں جن کی شکل دیکھے انہیں 8 سال ہوچکے ہیں۔ ان کی جان و عزت کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ان کی کوٹھری میں امریکی جیل کے مرد اہلکاروں کو داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ جیل کے مرد اہلکار ان کے سامان پر پیشاب کردیتے ہیں۔پاکستانی خاتون سفارتکار نے عافیہ صدیقی کی حالت زار کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جیل میں ہر شخص اور چیز سے خوفزدہ اور ڈری سہمی رہتی ہیں۔
جیل عملہ ان کی پرائیوسی کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان سے ان کی چیزیں چھین لیتا ہے، انہیں ہر وقت جسمانی و جنسی تشدد اور منظم آبروریزی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جبکہ ایک باعمل مسلمان خاتون کو ایسی جیل میں رکھنا ناقابل قبول ہے جہاں ہر وقت جنسی زیادتی کا خطرہ موجود ہو اور یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔عائشہ فاروقی کے مطابق ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو گھنٹوں تک بات چیت کرتی رہیں اور تمام سوالات کا جواب دیتی رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے اپنے وکلا پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور اپنے اہل خانہ سے قانونی ٹیم کو بدلنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انہیں صرف وکیل ٹینا فوسٹر پر اعتماد ہے جو مسلمان ہیں اور ان سے مخلص بھی ہیں جنہوں نے ان کے بیٹے احمد کی افغانستان سے رہائی میں مدد کی تھی۔ عائشہ فاروقی کے مطابق ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا کہ گفتگو ریکارڈ ہونے کی خوف کی وجہ سے وہ کراچی میں مقیم اپنی والدہ کے ساتھ فون پر بات نہیں کرتیں۔ دوران حراست اپنی صورت حال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جیل حکام ان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کو جنسی اور جسمانی طور پر ہراساں کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
گھر والوں کو ان کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے عائشہ فاروقی کو بتایا کہ جیل کے عملے نے کئی بار ان پر جنسی حملوں کی کوشش کی ہے اور ان کا اسکارف بھی نوچا گیا ہے، جب کہ فروری میں ان کے سپروائڑر نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان سے جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ان کی رہائی میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بلکہ حسین حقانی اور اس کے معاون خصوصی 2010 ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے مقدمے کے لئے مختص کی گئی 20 لاکھ ڈالر کی رقم بھی ہڑپ کر چکے گئے۔ ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انہوں نے 2011 میں اپنی سزا کے خلاف اپیل اس لیے نہیں کی کیونکہ انہیں جج سے انصاف کی کوئی امید نہیں تھی جب کہ اپنے وکلا کی نااہلی کی وجہ سے ان کا مقدمہ بھی امریکی سپریم کورٹ میں کہیں کھو چکا ہے، نیز ان کا مقدمہ بھی دھوکے کے سوا کچھ نہیں اختتامی لمحات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی والدہ کے لیے مختصر خط بھی تحریر کیا۔
عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے اپیل کرتی ہوں کہ مجھے امریکہ کی غیرقانونی قید سے رہائی دلائیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت سے قبل بھی مجھے بہت سپورٹ کیا۔ امید کرتی ہوں کہ وہ اس غیر قانونی قید سے رہائی میں میری پوری مدد کریں گے۔ عمران خان کو اپنے اردگرد موجود منافقین سے محتاط رہنا چاہیے ، امریکا میں میری سزا غیر قانونی ہے امیدکی جاسکتی ہے قو م کی بہادربیٹی عافیہ صدیقی بہت جلد اپنے ہم وطنوںکے درمیان ہوںگی اور ان کی رہائی کی کوششیںعمران خان گورنمنٹ کا ایک بڑا کارنامہ تصورکی جائے گا جس کی تعریف انپے پرائے سب کرنے پر مجبورہوجائیں گے دیکھیں حکومت اس سلسلہ میں عملی طور پر کیا کرتی ہے؟۔