تحریر : حفیظ خٹک عافیہ رہائی قافلہ غیرت کے امیر انعام اللہ مروت کا خصوصی انٹرویو سوال: انعام اللہ مروت ، سب سے پہلے اپنا تفصیلی تعارف کروائیں؟ انعام اللہ مروت: صوبہ خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ اسمعیل خان اور بنوں کے درمیان لکی مروت کا علاقہ ہے وہیں پر مدتوں سے اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر ہوں ۔زمینیں ہیں جن پر کاشتکاری کر کے محنت و مشقت اور عزت سے کماتا ہوں۔
کراچی اپ ڈیٹس : ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے آپ نے عافیہ رہائی قافلہ غیرت کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟ انعام اللہ مروت:ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہماری بہن ہے اور اس قوم کی بیٹی ہے ۔ ہم لوگ بہنوں اور بیٹیوں کے معاملے میں بہت حساس اور جذباتی ہوتے ہیں ۔ اس بہن کی رہائی کیلئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ ہم برسوں سے محنت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ہماری محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مایوس ہوگئے ہیں بلکہ ہم پہلے دن سے لیکر آج تک اللہ سے پرامید ہیں ہمیں اسی ذات سے امید ہے۔ یہی بات ہمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی کہتی ہیں۔ ہم بہن کی رہائی کیلئے اپنی جدوجہد کر رہے ہیں۔
عافیہ رہائی قافلہ غیر ت بھی اسی جدوجہد کا اک نام ہے۔ غیرت ہمارا اثاثہ ہے اور اسی غیر ت کو ہم نے اس قافلے کا نام دیا ہے ۔ عافیہ رہائی قافلہ غیر ت کا آغاز 7مارچ کو لکی مروت سے ہوا اور 6دنوں کے پیدل سفر کے بعد ہم لوگ پشاور پہنچے ۔ کوہاٹ ٹنل کو ہم نے گاڑی کے ذریعے پار کیا باقی ماندہ 207کلومیٹرکا سفر ہم نے پیدل کیا۔ پشاور میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دیگر سیاسی ، مذہبی اور سماجی جاعتوں کے رہنماﺅںنے ہمارا استقبال کیا۔
سوال : پشاور تک کے پیدل مارچ میں آپ کا سفر کیسا گذرا؟ سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں سمیت عوام کا رویہ کیسا رہا ؟ انعام اللہ مروت: جب ہم اپنے گھروں سے نکلے تو اس وقت جذبات عروج پر تھے جو کہ آج تلک قائم ہیں ۔ پشاور تک پیدل سفرکرنا کوئی معمولی بات نہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ساتھ بزرگ اور خواتین بچوںسمیت تھے جنہیں ہم نے بنوںکے قریب بڑی مشکل سے سمجھا کر واپس بھیجا اس وقت ہماری تعداد 250سے زائد تھی ۔ بنوں ،اس کے بعد کرک پھر لاچی ،کوہاٹ ،درہ آدم خیل ،متنی اور پھر پشاور ۔ بہت آسان ہے کہنا لیکن پتہ اس وقت چلتا ہے جب آپ ویران پہاڑوں ، صحراﺅں میں سفر کرتے ہیں ۔ بحرحال ہمیں تمام سیاسی، مذہبی جماعتوںنے بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا کسی بھی موقع پر بد انتظامی نہیں ہوئی اور صوبائی حکومت کی انتظامیہ نے بھرپور تعاون کیا ۔ہم نے ہر فرد کو ہرایک جماعت کوایک ہی بات ایک ہی عزم پہنچایا کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس ملک کی بیٹی ہے اور ہمیں ہماری بہن کی رہائی چاہئے ۔ اس کام کیلئے وزیراعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے وعدہ کیا تھا لہذا ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
Inam Ullah Marwat
سوال : پشاور تک آپ کاپیدل مارچ تھا ، وہ 15ختم ہوا پھر آپ اسلام آباد کیلئے کیوں نکل پڑے ؟ انعام اللہ مروت : وزیر اعظم نواز شریف کو ہمارے 207کلومیٹر کے عافیہ رہائی قافلہ غیرت نے نہیں جگایا ، ہمارے اس طویل تکلیف دہ سفر کا ان پر ان کی حکومت اور صدر پاکستان پر کوئی اثر نہیں ہوا حالانکہ پشاور پریس کلب میں قومی جرگہ بھی منعقد ہوا جس میں قوم کی بیٹی کی باعزت رہائی کی بات ہوئی اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور بیٹی کو واپس لائیں ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی اسپیکر صوبائی اسمبلی تک سے ملاقات ہوئی جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا مطالبہ سامنے رکھا لیکن تمام تر کاوشوں کے باوجود ابھی تک نواز شریف نے ہمارا مطالبہ پورا نہیں کیا۔ باہمی مشاورت کے بعد ہم نے اسلام آباد کی جانب عافیہ رہائی قافلہ غیرت کا رخ کر دیا اور یوں ہم 15مارچ کو اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ سوال : ابھی تک آپ کے قافلے نے کتنا سفر طے کرلیا ہے اور اس وقت آپ کہاں پر ہیں ؟ انعام اللہ مروت : پشاور سے اسلام آباد 184کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس وقت ہم اٹک پہنچ چکے ہیں۔
اٹک پریس کلب کے ملک عطا اپنے وفد کے ہمراہ ہمارے ساتھ موجود ہیں جبکہ ان کے ساتھ جاوید اقبال بھی ہیں ۔ تین دنوں میں اب تک ہم نے 92کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے اور باقی اتنا ہی سفر رہہ گیا ہے ابھی تک ہمیں کسی بھی طرح کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ۔ اس بار بھی وجہ سفر وہی ایک نقطہ ہے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وزیر اعظم نواز شریف باعزت رہائی دلواکر واپس لائیں ۔ سوال : عافیہ رہائی قافلہ غیرت میں اس وقت کتنے لوگ ہیں اور سخت سردی میں یہ سفر کیسے کر رہے ہیں ؟ انعام اللہ مروت : قافلہ غیر ت میں اس وقت 9افراد شامل ہیں اور انہی میں میرا 6سال کا بیٹا محمد وقار بھی شامل ہے ۔ جبکہ دس اور گیارہ سال کے دو اور بچے محمد عادل اور محمد سعید بھی شامل ہیں ۔ پشاور سے شعبہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ وسیم عباس بھی ہمارے ساتھ اس سفر میں شریک ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے طالبعلم آصف نواز بھی اسلام آباد کی جانب قافلہ غیرت میں ہمارے ساتھ شریک ہوئے ہیں ۔ ان سمیت 4دیگر افراد ہیں ۔ عوام کا انداز تو اس قدر پرجوش ہے کہ ہر فرد قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے اسلام آباد تک جانے کیلئے تیار ہے ۔ تاہم ضروت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس قافلہ غیرت سے کچھ سبق حاصل کرلیں اور اپنا ہی وعدہ پورا کرتے ہوئے قوم کی بیٹی کو باعزت رہائی دلواکر واپس لے آئیں ۔جہاںتک سردی کی بات ہے تو جب ارادے پختہ ہوتے ہیں تو اس سردی و گرمی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ سوال : انعام اللہ مروت اپنے اس قافلہ غیرت کی جانب سے عوام کو کیا پیغام دیں گے۔
Inam Ullah Marwat
انعا م اللہ مروت : میرا اور میرے ساتھی انور خان سمیت تمام عافیہ رہائی قافلہ غیرت کا صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام کو ، اب پنجاب کے عوام کو اور ان بڑھ کر پورے پاکستان کے عوام کو اور ان سے بھی بڑھ کر پوری دنیا کی عوام کو بس ایک ہی پیغام دینا ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی انسانیت کے پرچم کو ہی سامنے رکھتے ہوئے اور وزیر اعظم اپنے وعدون کو پورا کرتے ہوئے اپنی مریم کا احساس کرتے ہوئے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی دلوا کر وطن واپس لے آئیں ۔ اس پیغام میں اس جدوجہد میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے لہذا آگے بڑھیں اور عافیہ کی رہائی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔