ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان ہیں جنھیں امریکی حکومت نے 2003ء میں اغوا کر کے غیر قانونی طور پر قید کیا ہوا ہے۔ 2 مارچ، 1972 کو کراچی میں پیدا ہونے والی عافیہ صدیقی کی عمر 47 سال ہے۔آپ نے اعلی تعلیم یونیورسٹی آف ہیوسٹن،میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی سے حاصل کی۔آپ کے شریک حیات عمار البلوش، امجد محمد خان ہیں۔اور تین بچے احمد صدیقی، مریم بینت محمد،سلمان ہیں۔ڈاکٹر عافیہ کے اغوا اور مظلومانہ قید کی 15 سالہ غمناک داستان انسان کو خون کے آنسو رلاتی ہے۔ مسلسل بدترین مظالم کا شکار ہو کر امریکی قید میں رہنے والی مُحبِ وطن ڈاکٹر عافیہ ہر دردمند مسلمان کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ڈاکٹر عافیہ کا تعلق پاکستان کے مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ اس علم دوست خاتون نے امریکہ کی اعلیٰ جامعات ایم آئی ٹی اور برینڈیز سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کیا۔ دین سے محبت کے باعث انہوں نے قرآن کی تعلیم کو اپنی قابلیت کا حصہ بنایا اور دورانِ تعلیم ہی بصدِشوق قرآن حفظ کیا۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان خواب تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثات ان خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے۔ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو مارچ 2003 میں مبینہ طور پر حکمرانِ وقت پرویز مشرف کے حکم پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ایئربیس افغانستان لیجایا گیا۔
یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم میں قید رکھا گیا جہاں وہ امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلادینے والے مظالم کا شکار رہیں۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا جس میں ان پر M۔ 4 گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملہ کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔2009 میں انھیں امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا جھوٹا الزام لگا کر 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔قید کی سزا کے طور پر انہیں 66 کے تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت برداشت کرنے والی عافیہ کو قرآن کی بیحرمتی پر لباس دینے کی شرط رکھی گئی۔پرویز مشرف نے ان کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔آصف ذرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہیں کیے کہ بقول ان کے یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے کی اہم ترین کوشش کو ناکام بنا دیا حکومتی روئیوں سے بددل ہوکر عافیہ کے اہلِ خانہ نے عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ امریکی صدر باراک اوباما صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آذاد کرنا چاہتے تھے۔
پاکستانی صدر یا وزیرِاعظم کے عدم تعاون کی وجہ سے تمام عوامی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ تمام تر عوامی دباو? کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔ وقت گزرتا رہا۔ اور بلآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوو?ں کی جگہ آنسوو?ں نے لے لی۔امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی۔ لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا گیا۔ نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران قومی غیرت کی ڈالرز کے ذریعے سودے بازی کو ترجیح دیتے۔استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللّٰہ المجازی فرماتے ہیں ”اگر کوئی مسلمان عورت۔ یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔”ڈاکٹر عافیہ سیاسی قیدی ہیں۔ ان کو ریلیف دینے کا فریضہ حکومت پاکستان، اراکین پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں پر تھا لیکن طالبان نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بھرپور کوشش کر کے پاکستانی حکومت کو شرمسار کر دیا۔عوام کے دلوں میں پھر سے طالبان کی محبت نہ جاگ جائے اس وجہ سے حکومت نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا ڈرامہ رچایا۔
پاکستان میں آٹھ دس دنوں سے اٹھنے والے اک اجتماعی آواز اور عوام کے ذہنوں کو منتشر کرکے غلط رخ پر لے کر جانے اور پھر ہر بات کی تعریفوں کا رخ اپنی جماعت و حکومت و عمران خان کی طرف کرنے والوں کی اصلیت یہ ہے کہجب سے امریکہ کو افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں زبردست قسم کی چھترول ہوئی اور امریکہ مجبوراً طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آ گیا۔ تو مذاکرات کے سلسلے میں طالبان نے ہمیشہ شرائط رکھی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے طالبان نے انہیں شرائط کو پیش کرکے امریکہ سے کیوبا کی جیل میں قید ملا عبد السلام الضعیف حفظ اللہ کو رہا کروایا تھا اور پھر اب کی بار ملا عبد السلام الضعیف حفظہ اللہ کو طالبان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کا رکن بھی بنا دیا ہے اور جب سے ملا عبد السلام الضعیف حفظہ اللہ طالبان کی کمیٹی کے رکن بنے ہیں انہوں نے پاکستان کی بیٹی اور ہم سب کی مظلوم بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے مسلسل کوششیں شروع کی ہیں۔چند ہفتے قبل امریکہ اور طالبان کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے لیئے اک دوسرے کو اپنے اپنے قیدیوں کے ناموں کی لسٹیں دی گء اور طالبان کی طرف سے جو لسٹ امریکہ کے حوالے کی گء ان میں سب سے پہلا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے۔۔ یہاں تک تو امریکہ اور طالبان کی بات مکمل ہوئی نہ امریکہ نے اس لسٹ کے بارے میں کچھ کہا اور نہ ہی طالبان کی طرف سے کوئی بات سامنے آئی مگر یہاں پاکستان میں جیسے اک طوفان کھڑا کر دیا گیا اور پوری قوم کو اک ایسی چیز کی امید دلائی گئی جسے سن کر ہر پاکستانی جذباتی ہوگیا اور پوری پاکستانی قوم خوشی کے آنسو بہانے لگی۔ہوا یہ کہ جسے سن کر ہر پاکستانی جذباتی ہوگیا اور پوری پاکستانی قوم خوشی کے آنسو بہانے لگی۔ہوا یہ کہ جب یہ بات عالمی میڈیا کے ذریعے سے سامنے آئی کہ طالبان نے امریکہ کو جو قیدیوں کی لسٹ دی ہے ان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھی نام ہے تو پاکستان کے سیکولر و لبرل طبقے سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور وہ سمجھ گئے کہ اگر طالبان امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروا لیتے ہیں تو طالبان پوری پاکستانی قوم کی نظروں میں ہیرو بن جائیں گے اور پھر مشرف اور ان کے حواریوں کی اٹھارہ سالہ محنت پر پانی پھر جائے گا جو عوام کے ذہنوں میں طالبان کو اک دہشتگرد کے طور پر پیش کیا تھا۔اب انہی سیکولر و لبرل طبقے نے اک چال چلی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے نام سے اک جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا اور اس اکاؤنٹ سے لکھا کہ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہوں اور میری اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بات ہوء ہے۔۔
مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ پاکستانی حکومت و قونصلیٹ میرا بہت خیال رکھ رہے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ لکھ دیا کہ پاکستانی حکومت و خاص عمران خان کی کوششوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی 16 تاریخ کو رہا ہوکر پاکستان واپس آرہی ہیں اور تو اور پھر اک اور ٹویٹ کرکے لکھا کہ پاکستانی قوم کو مبارک ہو عمران خان کی محنت رنگ لے آیا اور عافیہ صدیقی رہا ہوکر امریکہ میں پاکستانی قونصلیٹ پہنچ چکی ہیں۔۔ یہ 16 تاریخ کی صبح کا وقت تھا مگر انہیں علم نہیں تھا کہ آگے اب کیا ہونے والا ہے کیوں کہ 16 تاریخ کو ہی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اک پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔آخر جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے پریس کانفرنس کی اور وہ حقائق بیان کیئے جسے سن کر ہر پاکستانی کی آنکھ جہاں نم ہوگء تو انہیں سیکولر و لبرل طبقے کو اپنی آٹھ دس دنوں کی محنت پر پانی پھرتا محسوس ہوا۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگر حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں ٹانگیں نہ اڑاتی تو آج عافیہ صدیقی ہمارے درمیان ہوتی۔ مختصر یہ کہ سیکولر و لبرل طبقے نے اک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ پہلا شکار عوام کے دلوں میں طالبان کی محبت کو آنے سے روکنا اور دوسرا شکار طالبان کی تمام محنتوں کا کریڈٹ حکومتی اداروں کو دینا مگر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی پریس کانفرنس نے سیکولر و لبرل طبقے کے ان دونوں نشانوں کو چکنا چور کر دیا۔
امریکہ دے کر بھیک ڈالرز کی ہر بار عافیہ صدیقی رہائی پر بات نہیں کرتا خدا غرق کرے یزید مشرف کو جس نے عافیہ کو امریکہ بھیج ڈالا بعد میں کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں جب بھی عافیہ رہائی مہم نے زور پکڑا تو دیکر مزید بھیک ڈالز کی عافیہ کیس منجمد کروا ڈالا ریمس ڈیوس کے بدلے عافیہ رہائی ڈیل ممکن تھی پر ان ظالم سفاک حکمرانوں نے ڈیوس کو باعزت بری کر ڈالا دیکر مزید بھیک ڈالرز کی عافیہ کیس منجمد کروا ڈالا جس قوم کی محقق اور سائنسدان بیٹیاں کفار کی قید میں ظلم سہیں اس قوم کے درد مند لوگوں کو لمحہ فکریہ سونے نہیں دیتا اس قوم کی باغیرت آنکھوں سے اشکوں کا تسلسل روکے کون جہاں مہوش حیات کو برہنگی پر تمغہ امتیاز سے نوازا جاتا ہو عافیہ صدیقی کو پس پشت ڈالا جائے حسن صدیقی کو پس پشت ڈالا جائے