کون جانتا تھا کہ 30 مارچ 2003 کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے گھر سے بچوں کے ہمراہ نکلنے والی پاکستان کی غیور بیٹی امریکہ کی قید میں جا پہنچے گی۔ ڈاکٹر و سائنسدان عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں گیارہ سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے ملک گیر تحریک چلائی، ہر سیاستدان، ہر حکمران سے ملیں، سب نے وعدے کئے مگر گیارہ سال گزر گئے وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔
عافیہ صدیقی کی گرفتاری و گمشدگی اہلخانہ کے لئے پریشان کن تھی ، برطانوی صحافی نے قیدی نمبر650کی بات کی تو امریکہ نے بگرام جیل میں بند ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا ۔انہی دنوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی خبرملنے پر ملک گیر احتجاج جاری تھا۔کراچی میں میری امریکی جیل میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن اور والدہ سے انکی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی ۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ”عافیہ” کے حوالہ سے بتاتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہم تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔سب سے بڑے بھائی اسکے بعد میں اور مجھ سے چھوٹی عافیہ ہیں۔چھوٹا بچہ ہمیشہ لاڈلا ہواکرتا ہے،لہذٰا عافیہ بھی گھر والوں کے لئے لاڈلی رہیں۔عافیہ ابتدا ہی سے نہایت خوش مزاج و ملنسار تھی۔پڑھائی میں ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوئی اور دوسروں کی مدد کرنا اسے بہت پسند تھا۔ وہ ہر چیز کی تہہ تک جانا پسند کرتی اور اس لئے اس نے مختلف مذاہب کا مطالعہ بھی کیا۔ عید کے موقعوں پر وہ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کیا کرتی تھیں۔اسے پالتو جانوروں سے بھی رغبت تھی۔گھر میں آج بھی اس کی پسند کے پالتو جانور موجود ہیں۔اپنی سخاوت اور خوش اخلاقی کے سبب وہ نہ صرف اپنے اسکول میں بلکہ ہر جگہ مرکزِ نگاہ بن جایا کرتی تھیں۔
فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ میری بہن عافیہ کو اپنے معصوم بچوں کے ہمراہ 2003 میں کراچی سے اغوا کیا گیا۔اس وقت وہ اپنے تین معصوم بچوں احمد،مریم اور سلیمان کے ہمراہ کراچی سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئی تھیں ۔سلیمان اس وقت 6 ماہ ،احمد 6 سال اور مریم ساڑھے3 سال کی تھی۔انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک کی تحقیقی رپورٹ سے اب تک یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ گھناؤنا ڈرامہ کس نے اور کیوں کھیلا ۔وہ بیچاری تو مامتا کی ماری یہ ہی پوچھ رہی ہے کہ آخر میرا جرم کیا ہے؟عافیہ کی گرفتاری کے وقت میں امریکہ میں مقیم تھی لہٰذا عافیہ کی اغواء کی فوری اطلاع نہیں ملی۔جب مجھے معلوم ہوا کہ میری بہن اور اسکے تینوں بچوں کو اغواکر لیا گیا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ انہیں کس حال میں کہاں رکھا گیا ہے اسوقت میری کیفیت نا قابل بیاں تھیں ایسے کہ پیر تَلے زمین کھسک گئی ہو۔ آپ سوچیں کہ اگر آپکا کوئی بچہ اسکول سے کچھ تاخیر سے گھر پہنچتا ہے تو کیا کیفیت ہوتی ہے ۔وہ احساست وہ جذبات ناقابل بیاں ہیں جو عافیہ کے ڈرامائی اغواکی خبرسن کر مجھ پر گذرے۔
میں اس حوالے سے یہ دعا کرتی ہوں کہ اﷲکسی بھی ماں کو، کسی بھی بہن اور بھائی کو ایسی خبر وں سے محفوظ رکھے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی الزامات کے حوالہ سے جب فوزیہ صدیقی سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہعافیہ پر امریکیوں کے لگائے گئے الزامات قطعی بے بنیاداور غلط ہیں ۔اور یہ بات صرف میں ہی نہیں کہتی بلکہ امریکی عدالت خود اس بات کو فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ عافیہ پر دہشت گردی کا یا عافیہ کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہٰذا جتنے بھی امریکی میڈیا نے عافیہ پر الزامات لگائے وہ یکسر غلط اور بے بنیاد ہیں ۔جو الزام عدالت میں ان پر لگایا گیا وہ اقدام ِ قتل کا ہے تا ہم اس کا بھی وہ ثبوت پیش نہیں کر سکے۔اسکے باوجود اانہیں تعصب کی بناء پر 86 سال کی بھیانک سزا محض پاکستانی مسلمان ہونے کی بنیاد پر دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتی تھیں۔
Pakistan
دوران طالب علمی میں پاکستان کے اندر بھی اور امریکہ میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہتی تھیں ۔وہ پاکستان کو تعلیم کے میدان میں کئی گناآگے پہنچانا چاہتی تھیں اگر یہ کہوں کہ وہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا چاہتی تھیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور ہر موقع پر نمایاں کارکردگی دکھائی۔اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر عافیہ کو متعدد بین القوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان میں نظام تعلیم کو بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے اس نہج پر پہنچانا چاہتی تھیں کہ بیرونِ ملک حصول ِ تعلیم کے لئے پھرکوئی باہر نہ جاتا بلکہ دیگر ممالک سے طلبہ اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستان کا رخ کرتے۔لہٰذا اگر عافیہ گرفتار نہ ہوتیں تو میں سمجھتی ہوں کہ آج اسکا تعلیمی انقلاب اپنا اثر دکھا رہا ہوتا اور پاکستان ،curreption,economics downfall کا شکار نہ ہوتا بلکہ آج ہم باشعور اور آزاد زندگی گذار رہے ہوتے نہ کہ غلامانہ اور مفلسانہ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالہ سے فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے حکومتی کردار سے قطعی مطمئن نہیں مجھے تو اپنی بہن چاہیئے حکومت کے آنسو یا جھوٹے وعدے نہیں ۔کردار تو اس وقت ہوتا جب حکومت عافیہ کے لئے کچھ کوشش کرتی ۔یہاں تو معاملہ یکسر مختلف ہے ۔حکومت پاکستان نے آج تک عافیہ کی رہائی کے لئے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
لہٰذا میں بر ملا اس بات کا اظہارافسوس کے ساتھ کرتی ہوں کہ عافیہ کے لئے حکومت پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ اگر حکومت پاکستان سنجیدہ ہو تو عافیہ کی رہائی ہفتوں نہیں دنوں کی بات ہوگی ۔تاہم ان تمام حالات میں بھی حکومت کا کردار قابل افسوس ہے۔جب عافیہ گرفتار ہوئیں تو مشرف کی حکومت تھی ۔سابقہ حکومت نے اگر عافیہ کو ایک بار بیچا تو موجودہ حکومت نے بار بار بیچا۔ آج تک کسی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کوئی کردار ادانہیں کیا ۔موجودہ حکومت کہنے کو تو جمہوری حکومت ہے عوامی حکومت ہونے کے باوجود بھی اس حکومت نے آج تک عافیہ کی رہائی کے لئے کچھ بھی نہیںکیا محض کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے ،اور پھر جہاں تک کچھ کرنے کا تعلق ہے تو سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزی کلارک ،سابق امریکی سینیٹر و صدارتی امیدوار مائیک گریول و دیگر نے حکومت کو دو ٹوک الفاظ میں عافیہ کے حصول کا راستہ دکھا دیا اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی، اس امت کی بیٹی کی رہائی کیلئے امریکی حکومت سے باضابطہ رابطہ کرے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے گو کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا تاہم ہماری عوام نے کوششیں کیں جو آج بھی جارہی ہیں۔قریباََ تمام ہی سیاسی جماعتوں جو حزب اقتدار میں ہیں یا حزب اختلاف میں سبھی اپنے طور پر عافیہ کی رہائی کیلئے وقتاََ فوقتاََکوشاں رہتی ہیں ۔عافیہ کی رہائی کیلئے جب بھی عوامی سطح پر کوئی پروگرام منعقد ہوتا ہے تو اسمیں عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ہماری غیور عوام نے ہمارے گھر کی بیٹی کو اپنی بیٹی کہا۔عافیہ کی رہائی کیلئے کاوشیں نہایت منظم انداز میں ہورہی ہیں۔عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے جلسے ،ریلیاں ، دستخطی مہم سمیت متعدد پروگرامات منعقد ہو چکے ہیں جنہیں زبردست عوامی پذیرائی ملی ہے۔پاکستان کی عوام تو عافیہ کی رہا ئی چاہتی ہے ،نہ صرف پاکستان کی بلکہ دنیا بھر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عافیہ کو با عزت رہائی ملے تاہم جب تک حکومت پاکستان اس حوالے سے عملاََ قدم نہیں اٹھا ئے گی عافیہ کی رہائی کا معاملہ حل نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے حکمرانوں سمیت ہر مکاتب ِ فکر کو کوشش کرنا ہوگی۔ عافیہ کو امریکی قید میں پورے گیارہ سال کا عرصہ بیت گیا مگر اِن کی رہائی کیلئے کِسی حکومت کی جانب سے بھی کوئی خاص اقدام نہیں اْٹھایا گیا وہ قوم کی بیٹی ہے اور اْس کیلئے ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑا سانحہ ہے جس کا احساس انُ اکابرین کو نہیں ہورہا مگر یاد رکھیں یہ عافیہ امت مسلمہ کی بیٹی ہے اور بیٹی غیرت کی علامت ہوتی ہے اور جو قوم کے رہنماء اپنی معصوم بیٹی کو رہا نہیں کرا سکتے وہ اپنی قوم کو ٹینشن میں اور خود اپنے ہی پناہ گاہوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ دو میں۔۔۔۔۔۔۔