تحریر : راؤ عمران سلیمان۔ انسانوں سے رفاقت اور محبت کا جذبہ بھی اللہ ہی کی دین ہے ورنہ کوئی کیوں دین ودنیا کی دولت سے مالا مال ہوکر بھی کسی کی مدد کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالے گا،مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ توفیق الہی کے بغیر نہ تو میں کسی کے کام آسکتاہوں اور نہ ہی کوئی میری مدد کو مجھ تک پہنچ سکتاہے ۔مگریہ کیسا مسلمان ہوگا جو اپنے مسلمان بھائی پر ظلم ہوتا ہوا دیکھ رہاہے۔ پاکستان میں موجود کئی مذہبی اور سوشل تنظیمیں جو اس وقت اقتدار میں نہیں ہیں برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف ملک بھر میں ریلیوں کو نکالنے میں مصروف ہیں ان تنظیموں کا بنیادی مقصد دنیا عالم کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان کی عوام برما میں ہونے والے مظالم کو نہیں دیکھ سکتے اور یہ کہ ہم بطور ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر ہونے والے ظلم وستم کہ خلاف ہیں، سوشل میڈیا پر برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف ایک طوفان سا برپا ہے سوشل میڈیا کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بہت سے نوجوان یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ برما میں جاکر اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرینگے اور انہیں برما میں ہونے والی زیادتیوں سے نجات دلائینگے ، گو کہ یہ ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے برما میں جانا اس قدر آسان کام نہیں ملک میں پھیلی غربت اور حکومت وقت کی نااہل پالیسیوں نے عوام کو جہاں کنگلا کیا ہوا ہے وہاں مہنگائی کہ اس دور میں مسلمان بھائیوں کی برما میں جاکر مدد کا جو جذبہ ہے۔
اسے پورا کرنا بہت سے لوگوں کی بس کی بات نہیں ہے،مگر اس ملک میں بسنے والے بہت سے لوگوں اور معروف شخصیات نے یہ قدم بڑھانے کی کوشش کی ہے ،جس میں آج کل اس ملک کی ایک معروف شخصیت ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب کا بھی برما جانے کا بہت شور سنا جارہاہے ہر جگہ خبروں میں رہنے والے عامر لیاقت حسین کے برما پہنچنے کا قصہ اس وقت سوشل میڈیا پر لوگوں کے ملے جلے جذبات کے ساتھ چل رہاہے مگر کچھ مسخرے ٹائپ لوگ اس وقت مزاحیہ چٹکلوں کے ساتھ اس معاملے کو پیش کررہے ہیں ،خاص طور پر جب برما پہنچنے پر ان کی گرفتاری کا معاملہ سامنے آیا ایسے میں نہ تو حکومت نے کوئی پیش قدمی کامظاہرہ کیا اور نہ ہی برما کی حکومت سے ان کی گرفتاری پر کوئی آواز اٹھائی ۔
ایک ایسا آدمی جسکو اللہ ان نیک مقاصد کو حل کرنے کی توفیق دیتاہے اورایسا آدمی جس کے پاس پیسے اور شہرت کی کوئی کمی نہ ہو وہ ہر لحاظ سے صاحب حیثیت ہو اوراپنے گھر والوں اور دوستوں میں ایک بہترین اور آئیڈیل لائف گزار رہاہوں و ہ مسلمانوں کوبرما میں موجود ان دہشت گردوں سے بچانے کے لیے نکل کھڑا ہو حالانکہ اگر اس میں پروگرام میں ریٹنگ کا معاملہ ہے تو وہ شخص اس کا بھی محتاج نہ ہو شہرت میں بھی اپنا ثانی نہ رکھتا ہو ،تو ایسے میں جب اپنے مشکل میں پھنسے مسلمان بھائیوں کی مدد کا جزبہ بیدار ہو تو ہمیں یہ بھی نہ ہضم ہوپارہاہو ؟ جن لوگوں نے ہرمعاملے میں تنقید کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیا ہے ایسے لوگ نہ تو خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو کچھ کرتاہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ہمیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو اس سفاک دور میں بھی ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔سنا تھااقتدار بہت خوفناک بلا کا نام ہے ایک ایسی بلا جس میں حکمران اپنی اولاد اور بہن بھائیوں کی شراکت بھی برداشت نہیں کرتاایسے مناظر دیکھنے کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے ملک پاکستان کی سیاست میں ہمیں اس قسم کی مثالیں بہت آسانی سے مل جاتی ہیں۔
حکمران طبقہ آئی ایم ایف اور عوام کے ٹیکسوں سے ملنے والے پیسے پر اس وقت اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے لگتا تو یہ ہے کہ ان کے نزدیک نوازشریف صاحب کی نااہلی برما میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام سے کہیں بڑی ہے نواز لیگ کے پٹواریوں کو اس وقت سوشل میڈیا پر مریم نواز کی ریلیوں پر کمنٹس کرنے کی فکر ہے انہیں ججوں پر تنقید کرنے کی فکر ہے جوبرما کے مسلمانوں کی بجائے شریف خاندان کو مظلوم اقلیت ثابت کرنے کی فکر میں ہیں چونکہ عامر لیاقت حکومت کی غلط پالیسیوں کو للکاررہاہے ایسے میں حکومتی پٹواریوں کو وہ کیونکر برداشت ہوسکتاہے، مگر یہ وقت آپس کے جھگڑوں کا نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کی یکجہتی کا وقت ہے ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ برما میں ہونے والے حالیہ مظالم کو اب کئی دن ہونے کو ہیں اور یہ کہ انسانیت سوز واقعات کی شدت میں ہر گزرتے ہوئے دن کے حساب سے اضافہ ہی ہورہاہے کٹے ہوئے ہاتھ پاؤں معصوم بچوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کرنے کے مناظر جلی ہوئی لاشوں پر گدھوں کا بیٹھنا اور خواتین کو ان کی تزلیل کے بعد قتل کرنے کے خوف ناک مناظراس وقت سوشل میڈیا پر باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں ،یہ معاملہ ہم مذہب سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو یہ ایک انسانی المیہ ہے جو دنیا بھر میں پھیلی کسی بھی اقلیت کے ساتھ پیش آ سکتا ہے۔
برما کے مسلمانوں کے لیے ہمدردی کا جو جزبہ ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے دکھایاہے اسے دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ ہی بھری جاسکتی ہے کہ کاش پاکستان کو بھی ایک ایسا ہی رہنما میسر ہوتا،۔ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے اپنے روایتی انداز میں صرف تشویش سے کام چلایاہے جبکہ باقاعدہ سرکاری سطح پر نواز حکومت کا کوئی نمائندہ کوئی مشیر یا وزیر ابھی تک مسلمانوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت برما نہیں گیاہے اور نہ ہی حکومت نے کوئی اس سلسلے میں وفد بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیاہے ،ان لوگوں میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ برما کے سفیر کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرواسکیں یا اسے ملک بدر کرنے کی جسارت کرسکیں پاکستان کی حکومت میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کی وہ ڈاکٹر عامر لیاقت کی گرفتاری کے وقت سفارتی سطح پر ہی برما کی گورنمنٹ سے بات کرسکتے جس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام حکومت کے کرنے کے تھے وہ کام ڈاکٹر عامر لیاقت نے کردکھایاہے ،جہاں تک حکومتی کرتا دھرتا وزیروں اور مشیروں کی بات ہے تو یہ سب کہ سب محترمہ مریم نواز کے ساتھ لاہور میں حلقہ این اے 120کی ریلیوں میں موجود ہیں جو بیگم کلثوم نواز کے ایکسرے اور نوازشریف کی مظلومیت کا وو ٹ لینے کے لیے دن رات سڑکوں اور گلی محلوں میں جارہے ہیں۔