کراچی (جیوڈیسک) ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے سندھ ہائی کورٹ کے روبرو اپنے دلائل میں کہا ہے کہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی توثیق سندھ اسمبلی سے نہیں کرائی گئی اس لئے ڈاکٹرعاصم کی نظر بندی غیرقانونی ہے۔
جسٹس سجادعلی شاہ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری کے خلاف ان کی اہلیہ زرین حسین کی درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے دلائل میں کہا کہ ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری کے لیے حکومت سندھ سے اجازت نہیں لی گئی۔ان کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ہے جبکہ ان کی گرفتاری کے لیے قابل اعتماد ثبوت بھی صوبائی حکومت کونہیں دیئے گئے۔
ایڈووکیٹ جنرل کی دلیل پرسندھ ہائی کورٹ نے استفسارکیا کہ اس وقت ہزاروں افراد رینجرز کی تحویل میں ہیں، کیا رینجرز نے حکومت سے اس سے قبل کسی کی گرفتاری کے لئے اجازت لی، کیا وہ ایک کیس ایسا بتا سکتے ہیں، جس میں رینجرز نے گرفتاری سے قبل اجازت لی ہو۔ عدالتی استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ رینجرز کے اختیارات میں توسیع کی توثیق سندھ اسمبلی سے 60 دن میں کرائی جانی تھی لیکن یہ توثیق نہیں کرائی گئی جس کے باعث ڈاکٹر عاصم کی نظر بندی غیرقانونی ہے۔
ہائی کورٹ نے عبدالفتح ملک سے استفسار کیا کہ کیا رینجرزکی شہر میں موجودگی غیر قانونی ہے، کیا سندھ حکومت رینجرز کو کہے گی کہ وہ صوبہ چھوڑ دے۔ عبدالفتح ملک کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی. واضح رہے کہ رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو 26 اگست کو حراست میں لیا تھا اور 27 اگست کو 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔