ڈاکٹر فرقان الحق کی موت: محلے میں بدنامی کے خوف نے ہسپتال جانے سے روکے رکھا

Doctor

Doctor

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا مریض ہونا ایک ایسا سماجی دھبہ بنتا جا رہا ہے کہ بیمار شہری ہسپتال جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال ڈاکٹر فرقان الحق ہیں، جو اتوار کو کراچی میں انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر فرقان الحق ایک ریڈیالوجسٹ تھے اور وہ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے علاوہ چند نجی ہسپتالوں میں بھی کام کر چکے تھے۔ موت سے پہلے ایک ہفتے تک ان کی طبیعت خراب تھی۔ جب انہوں نے اپنا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا تو یہ تصدیق ہو گئی تھی کہ وہ کووِڈ انیس میں مبتلا ہو چکے تھے۔

ان کے انتقال کے بعد مقامی میڈیا میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ ان کے اہل خانہ انہیں کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں لے کر گئے تھے لیکن وینٹیلیٹر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مبینہ طور پر واپس بھیج دیا گیا تھا۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے مطابق علاج کی مناسب سہولت نہ ملنے کے باعث ان کا اتوار تین مئی کو انتقال ہو گیا تھا۔

ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر حکومت پر کافی تنقید کی گئی کہ اگر کراچی جیسے بہت بڑے شہر میں ایک سینئر ڈاکٹر کو علاج کی مناسب سہولت میسر نہیں آ سکی تو عام شہری کس کے رحم و کرم پر ہیں؟

لیکن کراچی میں کئی سینئر ڈاکٹروں کے مطابق شہر میں آبادی کے تناسب سے طبی سہولیات کی کمی ضرور ہے تاہم ڈاکٹر فرقان الحق کی موت کی وجوہات سماجی نوعیت کی بھی ہیں۔

فلاحی ادارے انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری کے مطابق ان کے ہسپتال میں ڈاکٹر فرقان الحق کا علاج کرنے اور انہیں خاطر خواہ طبی امداد مہیا کرنے کا انتظام تھا، لیکن وہ ہی خود ہسپتال آنے سے گریز کرتے رہے تھے۔

ڈاکٹر باری کے مطابق، ”ڈاکٹر فرقان کی ایک بھتیجی ہمارے ہاں ڈاکٹر ہیں۔ انہیں اپنے چچا کی سانس کی تکلیف اور بخار کا علم ہوا تو انہوں نے انہیں بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ علاج کے لیے انڈس ہسپتال ا ٓجائیں، لیکن وہ نہ مانے۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ وہ گھر بیٹھے ہی اس انفیکشن سے نمٹ لیں گے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالباری نے بتایا کہ اس حوالے سے ان کے ہسپتال کی ایک ڈاکٹر کی اپنے چچا فرقان کے ساتھ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے، جس میں اس ڈاکٹر کو اپنے چچا کو ہسپتال آنے کا قائل کرنے کی کوششیں کرتے سنا جا سکتا ہے۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق ڈاکٹر فرقان کو بظاہر سماجی بدنامی کا ڈر تھا کہ اگر ان کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کی خبر عام ہو گئی تو اس بات کا ان کے گھر والوں اور اولاد پر برا اثر پڑے گا۔

ان ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر فرقان الحق اپنے گھر پر ایمبولنس بلانے سے اس لیے بھی انکار کرتے رہے کہ یوں ‘پورا محلہ جمع نہ ہو جائے اور پھر ان کے اہل خانہ کو بھی کہیں لے جا کر قرنطینہ میں نہ رکھ دیا جائے‘۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سینئر عہدیدار ڈاکٹر قاضی واثق نے کہا، ”دراصل ہم نے کورونا کیسز کو ایک تماشہ بنا دیا ہے۔ جہاں کہیں کسی نئے کیس کا علم ہوتا ہے، ایمبولنس، پولیس اور میڈیا کی گاڑیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ رش لگ جاتا ہے اور یوں مریض اپنی تضحیک محسوس کرتے ہیں۔ شریف لوگ ایسی صورت حال سے کتراتے ہیں۔ یوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اب اس تماشے سے بچنے کے لیے ٹیسٹنگ سے ہی گریز کرنے لگے ہیں۔‘‘

پی ایم اے کے سابق مرکزی عہدیدار ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے بتایا، ”ہمارے معاشرے میں سماجی بدنامی کا خوف ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈر اگر ایک سینئر ڈاکٹر کو ہسپتال جانے سے روکتا رہا، تو ملک کی عام آبادی پر اس کا اثر کتنا زیادہ ہو گا؟

ڈاکٹر ٹیپو سلطان کے مطابق، ”ہمیں لوگوں کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ بیمار تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے علاج سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ اور ویسے بھی کورونا وائرس کے اکثر مریض تو دوبارہ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔‘‘