کراچی (جیوڈیسک) میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے تادم بھوک ہڑتالی کارکن لطیف جوہر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اپیل پر بھی بھوک ہڑتال ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے باہر 38 سے 40 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں ایک شامیانے پر مشتمل کیمپ میں موجود لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال بدھ کو 37 روز ہو چکے ہیں۔
شام کو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالماک بلوچ کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور بھوک ہڑتالی کیمپ آکر لطیف جوہر کو بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی۔ ڈاکٹر عبدالمالک جو خود بھی زمانہ طالب علمی میں بی ایس او کے رکن رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انھیں آج جو مقام حاصل ہے وہ بی ایس او کی تربیت کا نتیجہ ہے لیکن یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود بی ایس او کے دوست مشکلات کا شکار ہیں۔
اس سے پہلے بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے زاہد بلوچ کو شناخت کرنے سے انکار کیا تھا، لیکن ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ وہ زاہد بلوچ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، اس نے ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے بعد میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر الگ ہوئے تھے۔
وزیر اعلیٰ عبدالمالک سے جب سوال کیا گیا کہ کیا زاہد بلوچ کو ڈاکو یا اسمگلر اٹھاکر لے گئے ہیں؟ تو انھوں پرطیش لہجے میں جواب دیا کہ زاہد ایک سیاسی کارکن ہے اس نے جدوجہد کی ہے اس کو ڈاکو کیوں اٹھاکر لے گئے ہوں گے۔
’جس روز سے زاہد کو اٹھایاگیا ہے، اس روز سے میں کوشش کر رہا ہوں، مجھے بھی پتہ ہے آپ کو بھی پتہ ہے کہ مسئلہ کہاں پر ہے۔ ایک سیاسی کارکن کہ طور پر میں ایسا کوئی وعدہ نہیں کرؤں گا جو وفا نہ کرسکوں میرے بس میں جو بھی ہوگا کوشش کروں گا لیکن اسی کوئی بات نہیں کرسکتا جس پر بعد میں بلوچی دیوان میں بیٹھ کر ندامت محسوس کروں۔
لطیف جوہر 37 روز سے بھوک ہڑتال کی باعث انتہائی کمزور ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان کا شوگر لیول خطرے کی حد تک گرچکا ہے جبکہ آنکھوں کے سامنے بھی اندھیرا چھا رہا ہے، انھیں بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری بھی بھوک ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کرچکے ہیں۔