تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری اپنی جرأت مندی اوراپنی تحریر کی بیباکی کے لئے مشہور، صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے انتھک محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ اپنی صحافتی بصیرتوں سے اردو صحافت کے اونچے مقام پر پہنچے ہیں۔ 2 مارچ 1952 کو پٹنہ میں ان کی پیدائیش ہوئی، اس لحاظ سے آج ان کی سالگرہ کا ہے . اس مناسبت سے میں انھیں آج خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ چند جملے لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے قومی، ملی ، سیا سی ، سماجی، ادبی اور لسانی افکار و اظہار سے بہار کے اردو صحافیوں میں اپنی خاص اور منفرد جگہ بنائی ہے۔ اردو صحافت ان کی مادّی ضروریات پوری کرنے کی اہل تو نہیں ہو سکی، لیکن انہیں اپنے صحافتی فرائض پورا کر جو روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہی ان کے لئے بڑی دولت ہے اور اس دولت سے ریحان غنی مالا مال ہیں۔
ریحان غنی ایک متوسط لیکن ، دینی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، شرافت ، ایمانداری اور قلم کی حرمت کی پاسداری کا فیض انہیں ورثے میں ملا اور وہ اپنی ان و راثت کو پوری طرح محفوظ رکھنے میں کامیاب ہیں۔ ریحان غنی کے دادا اور والد دونوں ہی جےّد عالم دین و ادب تھے، اس لئے ان کی بنیادی تعلیم اسی نہج پر ہوئی۔ پھلواری شریف ہائی اسکول سے ١٩٦٧ئ میں میٹرک پاس کیا، اور انٹر مرز ا غالب کالج ، گیاسے ١٩٧٣ئ میں پاس کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسیٹی سے بی. اے. ایم. اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ریحان غنی نے ١٩٧٦ئ میں گریجوئیشن کرنے کے بعد ہی ١٩٧٧ئ میں صحافتی دنیا میں اپنا قدم رکھا اور اس زمانے کے مشہور روزنامہ ”سنگم’ جس کے مدیر غلام سرور جیسے معروف اور بے باک صحافی تھے ، ان سے صحافت کی ابجد شروع کی۔ ذہانت، متانت، سنجیدگی اور شائشتگی کے ساتھ ساتھ ظلم و استحصال کے خلاف بغاوت کے عناصر نے بہت جلد، لوگوں کی توجہ ان کی جانب مبذول کرا دی ۔ غلام سرور جیسے سخت گیر صحافی بھی کبھی کبھی ان کی کسی رپورٹنگ یا تبصرہ کو بعض مصلحت پسندی کی بناء پر بدلنا چاہتے، تو بھی بدل نہیںپاتے۔ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں صدر شعبہ کو لے کر جو تنازعہ کھڑا ہوا اور ریحان غنی حق پر رہنے والے کا ساتھ دے رہے تھے،جبکہ غلام سرور دوسرے شخص سے دوستی نباہ رہے تھے۔ لیکن ریحان غنی کی رپورٹ چونکہ صداقت پر مبنی تھی، اس لئے وہ چاہ کر بھی بدل نہیں پاتے تھے۔ایسی سینکڑوں مثالیں ریحان غنی کی صحافتی زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔
Journalistic
”سنگم” میں ریحان غنی نے ١٩٨١ئ تک صرف صحافتی ذمہ داریاں ہی نہیں نبھائیں، بلکہ ان کے لئے ”سنگم” کا دفتر ایک تجربہ گاہ کی طرح رہا۔ انہیں یہاں غلام سرور جیسے صحافی کے ساتھ ساتھ خورشید پرویز صدیقی جیسے باصلاحیت صحافی کی بھی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ بتدریج ان کی سوچ اور فکر کا دائرہ پھیلتا گیا، ذہنی اور صحافتی بالیدگی نے ان کے اندر اعتماد اور اعتبار پیدا کر دیا، یہی وجہ تھی کہ یکم اپریل ١٩٨١ئ سے پٹنہ سے ”قومی آواز” جیسا بڑے گروپ کا روزنامہ شائع ہونا شروع ہوا تو ریحان غنی کو اس اخبار میں ترجیح دی گئی اور اس بڑے اخبار میں ریحان غنی نے اپنی زبردست علمی، ادبی، لسانی، اور صحافتی صلاحیتوںکا مظاہرہ کیا۔ اسی دوران محکمہ راج بھاشا، حکومت بہار میں ان کی مترجم کی حیثیت سے تقرری ہو گئی۔ ١٩٨٣ئ میں انہوں نے ملازمت قبول ضرور کی، لیکن قومی اور ملّی مسائل پر اظہار خیال کے لئے ان کی تڑپ جاری رہی، ذہنی انتشار، تذبذب اور بے چینی نے انہیں اس طرح پریشان کیا کہ آخر کار انہوں نے ١٩٨٥ئ میں اس سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور روحانی سکون اور اطمینان کے لئے ایک بار پھر ”قومی آواز” میںآکر اپنے قلم کو شمشیر برہنہ کی طرح استعمال کرنے لگے۔ لیکن افسوس کہ ١٩٩٢ئ میں ”قومی آواز’ ‘نے دم توڑ دیا۔
اس کے بعد ١٩٩٥ئ میں پٹنہ سے بڑی سج دھج اور پر وقار انداز میں پٹنہ سے روزنامہ ”انقلاب جدید” کی اشاعت شروع ہوئی، جس میں ریحان غنی کو ١٩٩٥ئ سے ١٩٩٧ئ تک اپنے صحافتی جوہر دکھانے کا خوب موقع ملا۔ ان کی تحریر میں بلا کی سحرانگیزی ہوتی، چبھتے ہوئے جملے ، طنز کی آمیزش اور حقائق پر مبنی ان کی تحریروںسے ایک خاص تاثر ابھرتا ہے۔ ایک زمانہ ان کے اداریوں اور تبصروں کا گرویدہ ہے۔ ١٩٩٧ئ میں ”انقلاب جدید” کی اشاعت تعطل کی شکار ہو گیا، اس دوران وہ پٹنہ کے ریڈیو اور دوردرشن کے اردو نیوز کو اپنی صحافتی صلاحیتوں سے معیاری اور مؤثر بناتے رہے۔ ٢٠٠٤ئ سے پٹنہ کے روزنامہ ”پندار” میں مدیر اعلی کی حیثیت سے ایک بار پھر انہیںآزادیٔ تحریر کا موقع ملا اور وہ اپنی بے باک، بے لاگ، بے خوف اور جرأت مندانہ اداریوں اور مختلف تبصروںسے خراج تحسین و صول رہے ہیں۔
Literary Services
ڈاکٹر ریحان غنی کی صحافت کے سلسلے میں بہت ہی واضح رائے ہے کہ صحافت حقیقی معنوں میں ایک ایسا پیشہ یا ذریعہ ہے ، جس کے توسط سے ایک شخص ملک و قوم کو بہت کچھ دے سکتا ہے اور ادب کی نشو نما میں اہم رول ادا کر سکتا ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس پیشہ کو کاروبار کے طور پر نہیں بلکہ مشن اور ایک نصب العین کے طور پر اپنایا جائے۔ لیکن افسوس اس پر ہے کہ اس وقت کی صحافت ، جس میں اردو صحافت بھی شامل ہے ، محض کاروبار ، تجارت اور کسب معاش کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔” ( اردو معلٰی کی ادبی خدمات’ صفحہ:12) ڈاکٹر ریحان غنی کی دو کتابیں ”قوس قزح ” اور ” اردو معلٰی کی ادبی خدمات ” منظر عام پر آ کر قارئین سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے دیگر صحافتی مضامین کو بھی مرتب کر کتابی شکل میں شائع کرائینگے، تاکہ ان کی تحریروں کے مدّاحوں اور آنے والی نسل استفادہ کر سکیں۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے اپنی عالمانہ صلاحیتوں اور صحافتی بصیرتوں سے اردو صحافت کا ایک اعلٰی معیار قائم کیا ہے، جن سے نئی نسل کے صحافیوں کو ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔