تحریر : انجینئر افتخار چودھری جہانگیر ترین لودھراں کا لیڈر خیال رکھنے والا ہے اگر نواز شریف نے ان سے وعدہ خلافی کی ہے تو جہانگیر ترین نہیں کریں گے۔پہلے یہ پڑھئے ۔ ہمیں تو علم ہی نہیں کہ لاکھوں طلباء میں سے سر نکالتا ہوا وہ شخص جو میٹرک میں اعلی نمبر حاصل کرتا ہے جسے آگے چل کر ایف ایس سی میںپچاس ہزار طلباء میں سے چنا جتا ہے اور پھر جب وہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے پہنچتا ہے تو تیس ہزار طلباء کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔پانچ سال لگا کر اسے ڈگری ملتی ہے اور ایک سال ہائوس جاب جس میں ستر سے اسی گھنٹے ہفتے کے دینے پڑتے ہیں۔آگے چل کر اسے پوسٹ گریجوئیٹ بننے کے لئے چار سال لگانے ہوتے ہیں۔اور اس کے اوپر اگر وہ سرجن ہے تو ہفتے میں دو سے تین بار تیس تیس گھنٹے جاگ کر آپریشن تھیٹر میں ڈیوٹی انجام دینا ہوتی ہے۔اور تو اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے معاشرے میں پھیلی سفارش کی گندگی کے تالاب سے ڈبکی لگا کر کسی پوسٹ پر پہنچنا ہوتا ہے۔
تب کہیں جا کر سینئر رجسٹرار بنتا ہے۔قارئین ہم اپنے دکھوں میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور کے دکھ کا احساس ہی نہیں ہے پچھلے دنوں بہاولپور کے ایک سینئر رجسٹرار لودھراں کی نادیہ کا آپریشن کرتے ہوئے اس جہاں سے گزر گئے۔ڈاکٹر اس سارے آگ کے دریا سے گزر کر یہاں تک پہنچے تھے۔نادیہ کا تعلق جہانگیر ترین کے علاقے لودھراں سے ہے۔نادیہ کا باپ مویشیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا یہ کانگو وائرس مویشیوں کے ساتھ چمٹے ہوئے چچڑوں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔یہ جسے ہو جائے اس کی موت یقینی ہے ڈاکٹر صغیر کے ساتھ ان کے دوسرے ساتھی ڈاکٹر اور نرس بھی شامل ہیں۔
اللہ کرے وہ بچ جائیں۔ڈاکٹر صغیر نوجوان تھا وہ ہمارا راشد منہاس تھا وہ چاہتا تو مریضہ کو کراچی بھیجنے کا مشورہ دے سکتا تھا وہ خود اٹھا اس نے اپنی ٹیم کوتیار کیا اور نادیہ کا آپریشن کر دیا جس کے نتیجے میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔ہمارے سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ ہمیں معلوم ہے لوگ میاں نواز شریف کے لندن جانے کے فیصلے کی مذمت اسی لئے کرتے ہیں کہ ان کے تیس سالہ دور اقتتدار میں چج کا ایک بھی ہسپتال نہیں ہے جو ان کا علاج کر سکے سندھ کے سائیں بھی یہی کچھ کر پائے۔مجھے آج کوئی سیاسی بات نہیں کرنی بس اس معاشرے کی اس آنکھ سے بات کرنی ہے جس کا ناک ہر جگہ گھس جاتا ہے مجھے ان اہل قلم سے گلہ ہے جو ڈاکٹروں کی اس خرکارانہ زندگی کا احاطہ نہیں کر سکے اور دنیا کہ یہ نہ بتا سکے کہ یہ مخلوق بھی کسی مسیحا کی منتظر ہے۔
Stethoscope
کہتے جو تن لاگے وہ تن جانے میرے گھر میں دو ڈاکٹر ہیں ٢٠٠٢ سے شعبہ ء طب میں داخل ہیں اور آج تک جدوجہد کے مرحلے میں ہیں۔ڈاکٹروں کی ذاتی لائف انتہائی پریشان کن ہیں اپنی فیملیوں سے منقطع اپنے کام میں مصروف۔کیا یہ ظلم نہیں کہ کہ ڈاکٹر ١٥ سال تک پڑھتا رہے اور پھر بھی بس پیٹ کی روٹی کے حصول میں کامیاب ہو۔میرا خیال ہے ہم ایک ایسا بھیڑیا تیار کر رہے ہیں جسے دیڑھ عشرہ عرصہ تک ہم بھوکا رکھتے ہیں اور جب وہ آزاد ہو کر ڈاکٹر بنتا ہے تو اسے اس سماج پر چھوڑ دیتا ہے جسے وہ ٹیسٹ کروا کروا کر کنگلہ کر دیتا ہے اور جو طبعی ولادت ہونے ہی نہیں دیتا۔ڈاکٹر کو ڈاکو بنانے میں اسی سماج کا بھی ہاتھ ہے اور اس گلے سڑے نظام کا بھی اگر ایک انجیئر چار سال میں ماں باپ کی لاٹھی بن جاتا ہے تو ڈاکٹر کیوں نہیں۔اسی لئے تووہ سماج سے بدلہ لیتا ہے۔یہی المیہ ہے کہ کم ڈاکٹر ہمیں دکھائی دیتے ہیں جنہیں دکھی انسانیت سے محبت ہوتی ہے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ ڈاکٹر کی کمائی اس کی اولاد کھاتی ہے ماں باپ کے لئے مستری مزدور مارکیٹنگ کے لوگ ہوتے ہیں جو صبح نکل کر خود بھی کھاتے ہیں اور ماں باپ کو بھی۔ڈاکٹر صغیر ان بھیڑیوں میں بھی ہو سکتا تھا اسے بھی لودھراں کی نادیہ کو بہاولپور سے کراچی یا ملتان بھیجنا آسان تھا مگر اس نے اتنی ساری تکلیفیں سہنے کے بعد فیصلہ کیا کہ نہیں میرے علاقے کی بیٹی کو کسی اجنبی شہر کے مسیحا کے پاس نہیں جانے دوں گا۔ڈاکٹر کا نام صغیر تھا مگر دراصل وہ کبیر کام کر گیا۔کانگو وائرس اور اس جیسے موضی مرض میں مبتلا لوگوں کے لئے معاشرہ صغیر نہیں پیدا کرتا بلکہ ہر اس ڈاکٹر کو مشرق وسطی یورپ امریکہ کھینچ کر لے جاتا ہے۔
بہت کم صغیر نادیہ کے لئے رہ جاتے ہیں۔مجھے اہل قلم سے شکوہ ہے ارباب اقتتدار سے نہیں۔یہ لوگ تو وہ کام کریں گے جس سے انہیں ووٹ ملتا ہو لودھراں میں جہانگیر ترین کی کئی تنظیمیں کام کرتی ہیں کیا انہیں علم ہے کہ ڈاکٹر صغیر پر کیا گزری ہے۔کسی کو علم ہے کہ اس کی جوان بیوی اور بچوں پر کیا گزرے گی؟کوئی جانتا ہے کہ اس کے بوڑھے ماں باپ جب اس کی موت کی خبر سننے کے مرحلے سے گزرے تھے تو دوہتڑ مار کر روئے ہوں گے۔
Pakistan Poverty
سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں روٹی کے مسائل اتنے ہیں کہ کوئی اپنا چیک اپ نہیں کرواتا۔ہر مریض ڈاکٹر سے سچ نہیں بولتا۔مجھے ڈاکٹر نبیل نے بتایا کہ دوروز پہلے ایک شخص ایک اندھی مریضہ کو میرے پاس لے آیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب ان کا دانت نکال دیں،جب میں نے دریافت کیا کہ ان کی آنکھیں کیوں ضائع ہوئی ہیں تو بتایا کہ بس ایسے ہی۔لیکن تحقیق سے پتہ چلا کہ مریضہ کو برین ٹیومر تھا اگر ان کا دانت نکال دیا جاتا تو خون بند نہیں ہونا تھا جس کا نتیجہ یقینی موت تھی۔ڈاکٹر اور موٹر مکینک سے جھوٹ بولنے والے نقصان میں رہتے ہیں۔کاش کہ ہم اپنے بارے میں جان سکیں کہ ہم کون کون سی بیامری لے کر جی رہے ہیں؟پمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
ہیپاٹائٹس کا مرض جڑیں پکڑ چکا ہے کوئی مریض اپنے آپ کو مریض نہیں کہتا۔اور اگر یہ مریض بنا ٹیسٹ کے آپریٹ ہو جائیں تو مسئلہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔کیا ڈاکٹر صغیر کو اس مریضہ سے جان چھڑا لینی چاہئے تھی؟انسانیت کے ناطے نہیں ڈاکٹر صغیر کو ہاتھ ڈالنا چاہئے تھا طب کا اصول کہتا تھا کہ اسے مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا۔ میں بھی یہی چاہوں گا کہ ڈاکٹر صغیر کو آپریشن کرنا چاہئے تھا۔لیکن اب ذمہ داری بنتی ہے ہماری حکومتوں کی کہ وہ ڈاکٹروں کی اس قسم کے کیسوں میں شہادت پر میڈیکل انشورنس کرے۔
ہر مریض کے پاس اس کا کارڈ ہو جس میں اس کی بیماریوں کی تفصیل موجود ہو۔خون کے ٹیسٹ ہسپتالوں میں فری کئے جائیں۔ڈاکٹر صغیرکے نام کو زندہ کیا جائے وہ ہسپتال وہ وارڈ اور وہ سڑک اس کے نام کر دی جائے۔وزیر اعلی انہیں کم از کم دو کروڑ روپے دیں تا کہ ان کی فیملی کا سہارا بن سکے۔ جہانگیر ترین اور کچھ نہیں تو وہاں تعزیت کرنے ضرور جائیں اور محسن لودھراں کی فیملی کی تشفی کریں،جہانگیر ترین لودھراں کا لیڈر خیال رکھنے والا ہے اگر نواز شریف نے ان سے وعدہ خلافی کی ہے تو جہانگیر ترین نہیں کریں گے ڈاکٹر صغیر تو زندہ رہے گا۔