تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستانیوں کیلئے ہر نیا صدمہ پرانے صدمے سے کہیں زیادہ افسردہ کردینے والا ہوتا ہے۔ سن ۲۰۱۸ پاکستانیوں کیلئے سوگوار فضاء کی چادر تنے چلے جا رہا ہے ۔جس کی وجہ کئی نامور شخصیات ایک کے بعد ایک دارِ فانی سے کوچ کرتی چلی گئیں اور فضاء کی سوگواری میں اضافہ کرتی چلی گئیں۔ تقریباً یہ تمام اموات طبعی تھیں ۔ اہل پاکستان انکے لئے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کیلئے دعا گو ہیں۔ابھی ان قبروں کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی ہوگی کے ایک انتہائی دل دہلادینے والا سانحہ ہوگیا جس میں تقریباً ۸ سالہ بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا اوربے دردی سے قتل کردیا گیا، ابھی اس واقع پر ساری قوم سوگ کی حالت میں تھی کہ کراچی میں دو جواں سال نو جوانوں کو قانون کے رکھوالوں نے موت کی نیند سلا دیا۔ ہر صدمہ دوسرے صدمے کو بھی ہرا کرتا چلا جا رہا ہے ۔مگرقصور شہر میں زینب نامی بچی کے ساتھ جو ہوا اسنے پوری قوم کو ایک بر پھر اتحاد کی لڑی میں پرونے کا کردار اداکیا اور پوری قوم نے ہر پلیٹ فارم پر نا صرف اس بہیمانہ قتل کی مذمت کی بلکہ قاتل کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا کا مطالبہ بھی کیایہاں تک کے اس واقع کے مجرم کو اسلام کی طے کردہ سزا دینے کا بھی مطالبہ سنائی دیا جا رہا ہے۔
یوں تو زینب جیسے دلدوز واقعات ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے ہی رہے ہیں اور اس واقع کے بعد بھی ایسے واقعات کی خبریں آنا بند نہیں ہوئی ہیں۔ تازر ترین مردان کا واقعہ ہے اور ابھی ایک خبر دیکھی ہے جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ زینب اب ایک تحریک کا نام ہے اور تحریکیں روکی جاتیں ہیں دبائی جاسکتی ہیں اورانہیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاسکتی ہے لیکن جب تحریک میں خون شامل ہوجائے تو وہ بغیر کسی متطقی انجام کے لپیٹی نہیں جاسکتی۔ اس پر مکمل یقین ہے کہ ظلم کی انتہاء ہوتی ہے جبھی تو قدرت نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی پیدا کیا ۔ زینب معاملے کی نوعیت اور اس میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اوراس پر عوامی بیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پاکستان کی اعلی عدلیہ نے اہم کردار کرنے کیلئے کمر کسی ہے بلکل اسی طرح پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی عدلیہ کی معاونت کیلئے اگلے قدموں پر چلنا پڑا، اور ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی ۔ بظاہر تو عمران علی نامی ملزم کی گرفتاری نے تقریباً سارا معاملہ سمیٹ ہی دیا تھا کہ ایسے میں پاکستانی صحافت کی ایک انتہائی معتبر اور نامی گرامی شخصیت جنکی بنیادی وجہ شہرت انکا ایک تاریخ ساز پروگرام دی اینڈ آف ٹائم بھی رہا ہے، آپ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب ،جو ملک کے سرکاری ٹیلی میڈیا سمیت دیگرمیڈیا ہاؤسز کے اعلی عہدوں پر اپنے فرائض منصبی نبہاتے رہے ہیں جوپاکستان میں بہت کم شخصیات کو میسر آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے زینب کے معاملے کی بنیاد پر کچھ ایسے انکشافات عوام اور سرکار کے سامنے رکھ دئیے جو کہ اکیسویں صدی سے تو ہم آہنگ ہیں مگر پاکستانی عوام کیلئے قطعی طور پر ناقابل ہضم دیکھائی دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی بناء پر قابل احترام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی ملاقات کی ہے اور ان تمام انکشافات کی گہرائی تک جانے کا اندیہ بھی دیا ہے ۔اب جب کے میرا یہ مضمون اپنے اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہے تو ڈاکٹر صاحب شدید دباؤ کی زد میں ہیں اور یہ دباؤ اس لئے ان پر آن پڑا ہے کہ دیگر معتبر صحافتی برادری نے ان پر اعتماد نہیں کیا اور ساتھ بھی نہیں دیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان تمام نامی گرامی شخصیت کو بھی اس گھمبیر صورتحال کا ذمہ دار ٹھیرا دیا ہے۔
شائد آج سے پہلے کسی کی آبروریزی ہوجاناور قتل کر دیا جانا جیسی باتیں بہت تکلیف دہ اور دل دہلانے والی تو ہوا کرتی تھیں مگر زینب کے واقع کے بعد سے جو واقعات و انکشافات کا ایک پنڈورا بکس کھلنا شروع ہوا ہے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اب شائد آنکھوں میں نیند نہیں آئے گی۔ ہماری ویب رائٹرز کلب کے سینئر نائب صدر جناب مسرت صاحب نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب پاکستانیوں کیلئے تو نئی ہوسکتی ہے مگر دنیا تو اس پر ۱۹۹۰ کی دہائی میں کام کرچکی ہے بلکہ قانون سازی بھی کرچکی ہے۔ پاکستان میں بہت سارے ایسے کام جو محاورتً کہتے ہیں کہ انیس سو ڈیڑ میں دنیا نے کر لئے تھے ہمارے یہاں اب ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ ہماری سراسر قومی بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیا جاتا بلکل ایسے ہی جیسے گاؤں دیہاتوں میں کسی کسان کا بچہ اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکتا اگر اس نے اعلی تعلیم حاصل کرلی تو زمینداروں وڈیروں کے ظلم و ستم کون سہے گا۔ ایک تو ہمیں مشکلات میں الجھا کر رکھا جاتاہے اور ان سے نکلنے کے سدباب کرنے کا اہل ہونے سے بھی روکا جاتا ہے۔
تمام باتوں سے قطعہ نظر تمام صحافی برادری کو ڈاکٹر صاحب کی معاونت کرنی چاہئے تھی جب کہ انہیں انتہائی سخت مخالفت نما چیز کا نا صرف سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ پڑ رہاہے۔ ہمارا مقصد یہ قطعی نہیں ہے کہ جیسا وہ کہہ رہے ہیں اسے من و عن یقین کرلینا چاہئے تھا ہونا یہ چاہئے کہ انکے ساتھ مل کر معاملے کی طے تک جانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ ان لوگوں کے اس طرح سے شور کرنے سے وہ تمام لوگ جو اس جرم کا کسی بھی طرح سے حصہ ہیں چکنے ہوگئے ہونگے اور قوی امکان ہے کہ ملک سے فرار بھی ہوگئے ہونگے۔
گزشتہ ایک دوروز میں ہماری خفیہ انجسیوں نے اس مسلئے کی حقیقت تک رسائی کیلئے اپنی کاروائیاں تیز کردی ہیں اور ابھی ایک ہی دن گزرا ہے تو جھنگ سے ایک ایسے ہی گروہ کا جس کا ذکر محترم ڈاکڑ صاحب نے کیا ہے گرفتاری بمعہ سازو سامان عمل میں آئی ہے۔ ابھی دیکھتے جائیے کہ کیا کچھ منظرِ عام پر آنے والا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی بغیر منظر عام پر لائے ہوئے بڑے پیمانے پر کاروائیاں ہوں جو کہ کسی حد ناممکن دیکھائی دیتا ہے دور حاضر میں تو گھر کے اندر کی باتیں سوشل میڈیا کی زینت بن جاتیں ہیں تو پھر یہ تو ابھی انتہائی تہلکا خیز مواد ہے۔
ان انکشافات سے جہاں پاکستان میں اسطرح کی سرگرمیوں میں ملوث افراد چکنے ہوئے ہونگے وہیں دنیا جہان میں معاملات پر کڑی نگرانی شروع ہوگئی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے کاروائیاں بھی کی گئی ہوں جنہیں منظر عام پر لاکر ملکوں کو بدنامی سے بچانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے ۔ ایک ہمارا ملک ہے جہاں غلط کو غلط کہنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ یہاں شخصی منافرت کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے آپ کو واضح کر سکیں یا نا کرسکیں مگر انہوں نے ایک بیج بودیا ہے کہ ایسا بھی کچھ دنیا میں چل رہا ہے اور ہم بھی اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم پاکستانی تحریک زینب کو آپریشن زینب کے نام سے کب یاد کرینگے۔ عدالت اعظمی کب خفیہ اداروں کو بھرپور کاروائی کرنے کی اجازت دیگی۔