تحریر: ڈاکٹر شمائلہ خرم ذوالحجہ کے مہینہ میں پہلے حج ادا کیا جاتا ہے پھر قربانی دی جاتی ہے قربانی دسویں ذی الحجة سے لیکر بارھویں ذی الحجة تک ہے۔ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں مسلمانوں پہ حج زندگی میں ایک بار فرض کر دیا گیا ہے جبکہ عیدالاضحی کے موقع پہ قربانی ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے عید الاضحی پہ قربانی دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ادا کرتے ہوئے ان کی یاد تازہ کی جاتی ہے قربانی خالص روحانی تصور اور اعلی انسانی صفت ہے قربانی حضرت آدم علیہ اسلام سے لے کر سرور کونین آقا جی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہر تک پھر قیامت تک آپ کی شریعت میں جاری ہے اور جاری رہے گی قربانی کی صورت میں مسلمان دین اسلام کو تحفہ عقیدت و نذرانہ پیش کرتے ہیں کیونکہ دین اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے ایسی قربانی کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور ہر صاحب استطاعت پہ قربانی فرض ہے ,اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا” فصل لربک و النحر” (پ٣٠ الکوثر) اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
قربانی بکرا،دنبہ ، بکری، گائے،بھینس،بکرا ،بھیڑ ،اونٹ سب کی جائزہے۔بکرا ،بکری ،دنبہ ایک سال کا ہونا ضروری ہے۔گائے بھینس دو سال کی،اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔گائے اونٹ میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔یہاں اس بات کی احتیاط ضروری ہے کہ کسی آدمی کا حصہ ساتویں سے کم نہیں ہوناچاہیے ورنہ سب کی قربانی نہیںہو گی۔اسی وجہ سے قربانی کا گوشت اندازہ سے تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔قربانی کا گوشت غریبوں ،مسکینوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے یہ بھی واضح رہے کہ قربانی کے گوشت کے تین برابر حصے بنا کر ایک حصہ اپنے عزیز رشتہ داروں ،دوسرا حصہ غریبوں و مسکینوں جبکہ تیسرا حصہ اپنے گھر والوں کے لئے ہوتا ہے۔
Qurbani
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا۔(طبرانی)حضرت عبیدبن فیروزسے روایت ہے کہ میں نے حضرت براء بن عازبسے پوچھامجھے بتائیے کہ کون سی قربانی ناپسندیدہ ہے اورکس قربانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیااورفرمایاچارقسم کے جانورقربانی کے لئے درست نہیں اوّل کاناجس کاکاناپن صاف ظاہرہو دوم جوبیمارظاہرہو،سوم جس کالنگڑاپن ظاہرہو،چہارم جواتناکمزورہوکہ اس کی ہڈیوں پرگوشت نظرنہ آئے۔
ام المومنین سیدتناحضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقاجی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم النحر(دس ذی الحج) کے دن بارگاہ الٰہی میں ابن آدم کے عمل میں سب سے پسندیدہ سخاوت قربانی کرناہے بے شک قیامت کے دن قربانی کاجانوربمعہ سینگوں بالوں اورکھروں کے آئے گا۔قربانی کے جانورکاخون زمین پرگرنے سے پہلے وہ جانوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتاہے۔ا(پس خوشی سے قربانی کرو)۔مشکوٰة شریف۔
Qurbani
قربانی کے بارے میں حضرت علی سے روایت ہے کہ ” اے لوگو قربانی کروجانوروں کا خون آخروی ثواب کے نیت سے بہائو قربانی کا خون اگرچہ ظاہرا زمین پہ گرتا ہے لیکن حقیقت میں اللہ کے خزانہ میں جاتا ہے ” یعنی حغرت علی فرماتے ہیں کہ مسلمان لوگوں جانوروں کی قربانی کرو اور اللہ سے ثواب کی نیت سے جانوروں کا خون بہائو حدیث مبارکہ ہے ” اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہوتا ہے ” یعنی اللہ کی رضا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے قربانی کرونہ کہ دنیا والوں کو دکھانے کے لئے کیونکہ اللہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے۔
فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ” قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ملتی ہے ” جہاں قربانی کا حکم دیا گیا وہاں قربانی کرے والے کو ثواب کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہے اور جو انسان صاحب استطاعت ہو اور قربانی کا فرض ادا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ تعالی کا سخت عذاب ہے رب کائنات ہر صاحب استطاعت مسلمان کو قربانی کا فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس فرض میں کوئی دکھاوا،نمود ونمائش اور ریاکاری شامل نہ ہو آمین ثم آمین