تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار ہوتے ہی پورے ملک میں جس طرح سے مذہبی منافرت، فرقہ واریت، عدم رواداری اور جمہوریت کی پامالی دیکھی گئی ۔نازیبا الفاظ کے ساتھ ساتھ زہریلے بیانات سے ملک کے پرامن اورخوشگوار ماحول کو جس طرح آلودہ کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ معصوم لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
ایسی تمام کوششوں پر آرایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارتی اور ان کی حکومت کی خاموشی کو رضا مندی اور سر پرستی تصور کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے حوصلے بڑھتے چلے گئے۔ اس کے بعد تو پورے ملک میں ایسے ایسے ناخوشگوار اور غیر آئینی و غیر انسانی سانحات ، واقعات اور حادثات رونمأ ہونے لگے کہ جنھیں دیکھ کر مساوات اور رواداری پر یقین رکھنے والے لوگ انگشت بدنداں ہیں۔
ہزاروں سال سے قائم ملک کی گنگا جمنی تہذیب، آپسی اتحاد واتفاق، اخوت، یکجہتی کی شاندار اور بے مثال وراثت کو ختم کرنے کی منصوبہ بند اور منظم سازشیں طشت از بام ہونے لگیں۔ کبھی پونا میں راہ چلتے بے گناہ مسلم نوجوان کوگھیر کر ڈھیر کر دیا گیا۔ کبھی پروفیسر کلبرگی کو ان کے سیکولر نظریات کی سزا دی گئی، کبھی فرقہ پرستی کی مخالفت پر نریندر دابھولکر اور گووند پنسارے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور کبھی اخلاق کو اس کی بے گناہی کی سزا یہ دی گئی کہ اس کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی بچوں کے سامنے ہی ڈوڑا دوڑا کر حیوانیت کو بھی شرمندہ کر دینے والے عمل سے ہلاک کر دیا گیا اور کبھی ہریانہ کے نیند میں ڈوبے دو دلت بچوں کو جلا کر مار ڈالا گیا۔ کبھی کسی کے چہرے پر کالک پوت دی گئی اور کبھی کسی کو سر عامگالیوں سے نوازہ گیا۔ کھانے پر پہرے بٹھائے جانے لگے،اظہار آزادی سلب کرنے کی کوششیں ہو نے لگیں ، مذہبی آزادی پر قفل ڈالا جانے لگا ، عشق و محبت پر بھی پابندی عائد کی جانے لگی۔
Positive thinking
دن بدن بڑھتے ایسے ناگفتہ بہہ حالات سے ملک کے اس طبقہ کا فکرمند ہونا لازمی تھا، جو ادب، آرٹ، تاریخ اور سائنس کے حوالے سے قوم و ملک اور سماج کی فلاح و بہبود کی مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہے۔ ملک کی ایسی بگڑتی سنگین صورت حال ،جب ایسے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی ، تب ان لوگوں نے حکومت وقت کو بہت دکھی من سے متنبہ کرنے کے لئے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ لیکن مصنفین کے احتجاج پر سنجیدگی سے فکر و عمل کرنے کی بجائے ان کے ماضی اور حال پر ہی حکومت کے لوگوں نے سوالیہ نشان لگانا شروع کر دیا ، تب ان مصنفین کو ذلیل و خوار کئے جانے اورجمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ہو رہے احتجاج میں ہر مکتبۂ فکر کے فنکار ، قلمکار ، فلم ساز، تاریخ داں ، سائنس داں ، سبھی شامل ہوتے چلے گئے۔
ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانے لگے اور ان کی بازگشت گونجنے لگی کہ بد امنی ، فرقہ پرستی اور حیوانیت کے ننگا ناچ پر ملک کے لوگ خاموش نہیں رہینگے۔ لیکن ایسے بلند پایۂ فنکاروں ،قدآور قلمکاروں کے احتجاج کا حکومت وقت پر کوئی اثر نہیں ہو ا۔ ملک میں تیزی سے پھیل رہے انتشار اور بد امنی پر صدر مملکت ہندکئی بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
حزب اختلاف کے لوگ تو مسلسل تنقید کر ہی رہے ہیں ۔لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے مدلل جواب دینے کی بجائے بڑی تعداد میں اعزازات واپس کئے جانے والوںسے ہی یہ سوال کر رہے ہیں کہ ملک میں کسی بھی حادثہ کے لئے وزیر اعظم کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔؟ اب انھیں کون بتائے کہ وزیر اعظم پورے ملک کا سربراہ ہوتا ہے ۔ اس کا ایک اشارہ پورے ملک کے لئے اہمیت رکھتا ہے، اور پھر ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی تو ملک کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں۔
Return Awards
پھر وہ ملک کے اتنے بڑے بڑے مصنفین ، فنکاروں ، قلمکاروں ، تاریخ دانوں اور سائنس دانوں کے ذریعہ ملک میں تیزی سے پاؤں پسار رہی فسطائیت پر اپنی بے چینی ، بے قراری اور نا قابل برداشت حالت میں اٹھائے گئے احتجاج میں، ایوارڈ واپسی کے سخت قدم پر خاموش کیوں ہیں ۔ اپنی چپّی توڑتے کیوں نہیں ہیں ؟ پچھلی حکومت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی بعض ناپسندیدہ واقعات پر خاموشی پر خود موجودہ وزیر اعظم نے ”مونی بابا” (خاموش بابا) کا نام دیا تھا۔
پھر وہ بذات خود ملک کے ایسے نازک حالت میں ”مونی بابا ” کیوں بن گئے ہیں ؟ یہ ہمیشہ ملک کے سوا سؤ کروڑ عوام کی نمائندگی کی باتیں کرتے ہیں ۔ ‘ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں۔ پھر وہ نینا سہگل سے لے کر خلیل مامون، منور رانا وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان ہی کے پارلیامانی حلقہ بنارس کے مشہور ہندی ناول نگار پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ کی احتجاج میں واپس کئے جانے نیزراجستھانی شاعر نند بھاردواج، انگریزی ادب کے شاعر کیکی این دارووالا، اشوک واجپئی، ادئے پرکاش، سارا جوزف وغیرہ جیسی سرکردہ ہستیوں سمیت پچاسوں مختلف زبانوں کے مصنفین اور دانشوروں، فلموں سے تعلق رکھنے والے کار دیواکر بنرجی، پریش کامدار، لیپیکا سنگھ، نسٹھا جین ، آنند پٹوردھن، کرتی نکھوا، ہرش کلکرنی اور ہری نائر جیسے درجنوںمعروف فلم کاروں ، پروفیسر رومیلا تھاپڑ، عرفان حبیب، ڈی این جھا ، مردلا بھٹا چاریہ سمیت پچاس سے زائد ملک کے جانے مانے تاریخ دانوں ، مشہور سائنس داں پدم شری پشپ متر بھارگو کے ذریعہ احتجاجاََ اپنا پدم بھوشن ایوارڈ لوٹائے جانے کے اعلان ،اشوک سین اور پدم شری ڈی بالا سبرامنیم سمیت ایک سؤ سات سائنسدانوں کے ذریعہ صدر مملکت ہند کو خط لکھ کر ملک کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کئے جانے کے باوجود خاموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اب تو احتجاج میں فوجی افسر بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ میجر جنرل ستبیر سنگھ نے بھی اپنا فوجی تمغہ واپس کر اپنا احتجاج درج کرا دیا ہے ۔شبانہ اعظمی، شرمیلا ٹیگوراور شاہ رخ جیسے فلم اسٹار بھی ایوارڈ واپس کرنے والوں کی ہمایت میں سامنے کھل کر آ گئے ہیں ۔ عالمی شہرت یافتہ سرود نواز امجد علی خاں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ایوارڈ واپس کرنے ادیب و فنکار پاگل نہیں ہیں ، وہ بہت دکھی ہیں اور اپنے اعزاز لوٹا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ایوارڈ واپسی کے سلسلے میں اردو کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان مثلاََ گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، سلام بن رزاق، جاوید اختر ، ندا فاضلی، ش ک نظام، جابر حسین، عبداصمد وغیرہ کی خاموشی سے بڑے سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔
Protest Campaign
ویسے اس احتجاجی مہم کو رحمان عباس ، ابرار مجیب ، مشرف عالم ذوقی اور تبسم فاطمہ وغیرہ جیسے اردو کے فنکاروں نے آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ قلمکاروں کی بین الاقوامی تنظیم PEN نے کناڈا میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں نہ صرف بھارت کی موجودہ صورت حال کی سنگینی سے متاثر ہو کر احتجاج میں قلم کاروں اور فنکاروں کے ایوارڈ واپس کئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ باضابطہ ایک تجویز بھی پاس کر، حکومت ہند سے اس سلسلے میں مناسب ا قدام پر زور دیا ہے ۔امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بھی اس ضمن میں بھارتی حکومت کو توجہ دینے کی درخواست کی ہے۔
بھارت کی مختلف زبانوں کے مصنفین نے شائد پہلی بار دہلی میں ایک میٹنگ کرحکومت کے رویۂ پر اپنی ناراضگی اور احتجاج درج کرایا ہے۔ احتجاج کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے ۔ سو نیا گاندھی نے بھی کافی بڑی تعداد میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ راشٹر پتی بھون جا کر صدر مملکت کو ملک میں بڑھتی عدم رواداری اور فرقہ پرستی کے خلاف ایک عرض داشت دے کر چکی ہیں۔ ملک کے لوگوں کاغم و غصہ اور احتجاج نہ صرف ملک بلکہ ملک سے باہر بھی بین ا لاقوامی سطح کے اخبارات اور دیگر میڈیا میں خاص موضوع بنا ہوا ہے ۔ اس لئے کہ بھارت میں اتنے بڑے پیمانے پر اس طرح کا شدیداحتجاج آزادی کے بعد پہلی بار سامنے آ یا ہے۔
یہ احتجاج اس وقت کی یاد دلا رہا ہے جب جرمنی میں ہٹلر کی سرپرستی میں فسطائی طاقت کا بول بالا تھا ، یورپ میںکئی طرح کا بحران جنم لے چکا تھا ۔ ادیبوں اور دانشوروں کی ناقدری بڑھ گئی تھی، اظہار آزادی پر پابندی لگائی جا رہی تھی ، ایسے حالات میں پیرس میں ماہ جولائی 1935 ء میں ٹامس مان، رومن رولان،اور آند مالرو وغیرہ نے پوری دنیا کے مصنفین ، شعرأ، اور دانشوروں کی ایک ہنگامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا ،جس میں ہمارے ملک کی نمائندگی اردو کے مشہور ترقی پسند ادیب، ناول نگار سجاد ظہیر اور انگریزی ادب کے معروف ناول نگار ملک راج آنند نے کی تھی ۔ اس کانفرنس میں فسطائت کے خلاف کئی اہم فیصلے لئے گئے تھے ۔جن کے دیر پا اثرات مرتب ہوئے تھے۔
Rajnath Singh
ایسی تمام صورت حال سے بے نیاز ہمارے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یہ فرما رہے ہیں کہ” احتجاج کرنے والے لوگ دراصل وزیر اعظم اور بھاجپا کے خلاف منصوبہ بند سازش رچ رہے ہیں ”۔وزیر خارجہ کی اس طرح حقائق سے چشم پوشی قابل دید ہے ۔ انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ پانچ سال تک اٹل بہاری واجپئی کے زیر قیادت بھاجپاحکومت کے دوران جب کبھی ایساکوئی سنگین معاملہ سامنے آیا ، اس وقت بھی احتجاج کیا گیا تھا ۔ اسی دور میں جب وزیر تعلیم کی حیثیت سے مرلی منوہر جوشی نے نصاب تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی تھی ، تو اس وقت سخت مخالفت ہوئی تھی ، احتجاج میں لوگ سڑکوں پر بھی اترے تھے۔
اسی زمانے میں جب اسکولوں میں ‘ وندے ماترم ‘ کو ضروری قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی ، اس وقت بھی سخت احتجاج ہوا تھا اور جب گجرات میں ہزاروں معصوم اور بے گناہوں کو بڑی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا ، اس وقت بھی شدید احتجاج ہوا تھا ۔ ان تمام غیر جمہوری عمل اورغیر انسانی سانحہ پر وزیر اعظم وقت اٹل بہاری واجپئی نے سخت نوٹس لی تھی ، بلکہ گجرات فساد کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے’ راج دھرم’ نبھانے کی بات کی تھی ۔ لیکن انھوں نے نہ صرف پارٹی کے سینئیر رہنما ٔ اور ملک کے سربراہ تک کی اس گزارش کو ٹھکرا دیا تھا۔
حکومت کے کچھ لوگ اس بات پر بھی معترض ہیں کہ ملک میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی، اس وقت مصنفین نے کیوں نہیں احتجاج کیا تھا اور اپنے ایوارڈ واپس کئے تھے ۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے میں یہ بتا دوں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف 1975 میں بہار سے تعلق رکھنے والے ہندی کے مشہور ناول نگار پھنیشور ناتھ رینو نے احتجاج میں پدم شری ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ 1984کے سکھ دنگے کے خلاف احتجاجاََ معروف ادیب اور صحافی خشونت سنگھ نے اپنا پدم بھوشن ایوارڈ واپس کر دیا تھا ۔ 1992 اور2005 میں سرکردہ تاریخ داں رومیلا تھاپر بھی پدم بھوشن احتجاج میں لینے سے انکار کر چکی ہیں۔
Salim Khan
2002 میں کتھک ڈانسر ستارا دیوی نے بھی پدم بھوشن نہیں لیا تھا۔ مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر نے بھی 1958 میں اپنے وقت کا باوقار فلم فیئر ایوارڈ نہیں لیا تھا ۔ مشہور فلم اداکار سلمان خاں کے والد سلیم خاں بھی پدم شری کا ایوارڈ لوٹانے والوں میں ہیں ۔ ماضی کے اوراق پلٹے جائیں تو ایسی بہت ساری مثالیں مل جائینگی ۔ رابند ناتھ ٹیگور بھی جلیان والا باغ میں ہوئے خونین سانحہ کے بعد انگریزوں کی جانب سے عطا کردہ ” knight hood” کا اعزاز 1919 ء میں احتجاجاََ لو ٹاچکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی ایسا کیا ہو گیا کہ سینکڑوں سائنسدانوں ، ادیبوں اورتاریخ دانو ں اور سابق فوجی افسران سمیت اتنی بڑی تعداد سرکردہ اور جانے مانے لوگوں کی ، احتجاج میں کیوں کھڑی ہو گئی ۔ دراصل ملک کے اندر جس طرح کی فرقہ پرستی ، انسانی حقوق کی پامالی ،جمہوریت کی بے وقعتی ، لا قونیت ، مذہبی منافرت اور کھانے ، پینے ، بولنے کی آزادی کو سلب کرنے کی جس طرح بزور طاقت کوششیں ہو رہی ہیں ، اس سے ایسے حب وطن لوگوںکی دور اندیش نگاہیں ، ملک کی سا لمیت پر منڈلانے والے خطرہ کو دیکھ رہی ہیں ۔ بقول معروف سائنسداں بھارگو ‘ مودی حکومت میں مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی فرقہ وارانہ اور علیحدگی پسند عناصر کی کوششوں کو سرپرستی دینے کی میں مخالفت کر رہا ہوں۔
India
ایسے باوقار اور ملک کے بے حد قیمتی لوگوں کے احساسات و جزبات کو بہت سنجیدگی سے سمجھنے اور ان کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے ، نہ کہ ان پر تنقید اور جارہانہ حملہ کرنے کی ۔ ویسے احتجاج میں ایوارڈ واپس کرنے کی پہل کرنے والی معروف مصنفہ نینا سہگل کی بات میں بڑا دم نظر آتا ہے کہ جیٹلی اور راج ناتھ سنگھ وغیرہ کے بے تکے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ عوام کے غم و غصہ اور احتجاج سے مرکزی حکومت گھبرا گئی ہے ۔ ادھر گلوبل ریٹنگ ایجنسی ‘موڈیز’ نے بھی اپنی ایک رپورٹ بہ عنوان ‘بھارت پر ایک نگاہ:امکان کی تلاش میں ‘ کے تحت یہ تنبیہ کی ہے کہ ‘ بھارت میںجس طرح اقلیتوں کے معاملے میں تناؤ چل رہا ہے ، اس سے شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرمودی نے اپنی پارٹی کے لوگوں پر لگام نہیں لگایا تو نہ صرف ڈیموکریٹک بلکہ گلوبل اعتبار بھی وہ کھو دینگے’ ۔ بہر حال توقع کی جا سکتی ہے ان سب حالات کے مد نظر مرکزی حکومت وقت رہتے اپنے اقدام پر نظر ثانی کرتے ہوئے ملک میں آپسی بھائی چارہ اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرتے ہوئے ملک کے آئین کو مزید شرمشار نہیں کرے گی۔