تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ذریت ِ امام حسن مجتبیٰ کے دمکتے ستارے آل ِطائوس سیدنا امام حسن مجتبیٰ کی آل ِاطہرمیںچھٹی پشت میں سید ابو عبداللہ محمد بن اسحاق علیہم السلام اسقدر حسین و جمیل تھے کہ اپنی خوبصورتی ،خوبروئی،اور حسن و جمال کے باعث ”طائوس” (لغت میںطائوس انتہائی چمک دار تمثیلاً خوبصورت شے کو کہا جاتا ہے تو تشبیہ میں مور کا استعارہ ہے ۔)کہلائے ۔آپ سیدنا ابو عبداللہ محمد بن اسحاق بن حسن بن محمد بن سلیمان بن دائود بن سیدنا امامزادہ حسن مثنّٰی بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا اما م علی مشکلکشا شیر خدا ہیں۔آپ کے جد اعلیٰ ،سیدنا دائود بن امامزادہ حسن مثنّٰی کی والدئہ معظمہ، ”ام دائود”حبیبہ اہل روم سے تھیںاور ان سے منسوب ”عمل ام دائود” مجرب عملیات میں ہے۔سیدناابوعبداللہ محمد کی اولاد ِاطہار آل ِطائوس کہلاتی ہے جومتقدم علمائے اسلام میں ایک نمایاں جماعت ہیںاور مملکت ِعراق میں آباد ہیں۔سادات ِآل ِطائوس میںسے دین ِاسلام کے کئی نامور مبلغ اور علمائ،فضلاء وفقہاء قرطاس ِتاریخ پہ جگمگائے ہیں۔دین ِاسلام اور عرفانیات کی پرانی کتب مصادر ان ہی کی تحریرکردہ ہیں۔آل ِطائوس کے جواہر یگانہ میں چند نمایاںشخصیات کچھ اس طرح ہے۔
١۔علامہ جمال الدین احمد عالم بزرگ،سید عالم وزاہد،مصنف ِجلیل القدرجمال الدین احمد بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن احمد بن محمد بن محمد الطائوس نامور فقیہ ہیں اور آپ کی”کتاب البشریٰ”،”ذالملاذ”،علماء میں معروف ہیں۔آپ فقہ و رجال میں یگانہ روزگار تھے۔کتب فقہ و رجالیہ میں ”سید ابن طائوس ” سے یہی مراد ہیں۔آپ کے ایک صاحبزادے عبدالکریم غیاث الدین تھے۔یہ جلیل الشان عالم،سید خاص وعام میں عزت و حرمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔آپ کی تصانیف میں سے ”الثمل المنظوم فی اسماء مصنف العلوم”قابل ِذکر ہیں۔آپ کے کتب خانہ میں نفیس کتب کے دس ہزار مجلدات موجود تھے۔
Anvar e Hasanah
٢۔علامہ رضی الدین علی آپ ،سید جمال الدین احمد کے بھائی تھے اور عالم،زاہد ،صاحب کرامات اور نقیب سادات تھے۔آپ دونوں بھائیوں کی والدہ،شیخ الزاہد الأ میر،ورّام بن ابی فراس کی صاحبزادی ہیں۔آپ کی مدح سرائی میں عرب شاعر کا بیان ہے؛ وَرّام ُجَدُّھُم لأ مِّھِمْ، وَمُحَمَّدُ ۖلِاَبِیھِم ْ جَدّ ان کی والدہ کی طرف سے ان کے جد ورّام ہیں اور والدکی طرف سے ان کے جدمحمد ۖ ہیں۔آپ ، آلِ طائوس کی فاضل ترین اور معروف ہستی ہیں۔کتب ادعیہ وزیارات میں جن بزرگ کا تذکرہ ہوتا ہے اس سے مراد یہی ”ابن طائوس ” ہیں۔آپ صاحب کتاب ،”زوائد الفوائد ” ہیں۔آپ اسم و کنیت میں اپنے پدر بزرگوارکے شریک و سہیم تھے۔
نقیب ِ طالبین اولادِسیدنا ابو طالب ہونے کے ناطے ذریت رسول اللہ ۖ ،سادات بنی فاطمہ کو طالبین بھی کہا جاتا ہے اورتمام سادات کے جملہ اموردینی و دنیاوی کا نگران و نگہبان ، نقیب ِ سادات کہلاتا ہے۔سید رضی الدین ، سادات عظام کے نقیب تھے۔آپ محقق خواجہ نصیر الدین طوسی کے ہمعصر تھے۔آپ کی چند اہم تصانیف وتالیفات میںمہج الدعوات، تتمات،مہمات،مصباح المتہجدوسلاح المتعبد،اللہوف علی قتل الطفوفنمایاں ہیں۔ مستجاب الدعوات اور اسم اعظم جانتے تھے۔آپ فرماتے تھے کہ میں اسم اعظم اپنی کتب میںمحفوظ و مکتوب چھوڑ رہا ہوں۔اب یہ آپ کافرض ہے کہ مطالعہ سے اسے سمجھ لیں۔آپ کے دو صاحبزادے سیدصفی الدین محمد، مصطفٰی کے نام سے معروف اوردوسرے رضی الدین علی،جو مرتضٰی کے نام سے معروف تھے۔
صفی الدین محمد ، المصطفٰی: آپ طاقتور نوجوان تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب منقرض ہو گیا۔ رضی الدین علی، المرتضٰی: آپ اپنے والد کے بعد نقیب ِنقباء ہوئے۔آپ کی ایک صاحبزادی ،شیخ بدرالدین المعروف شیخ المشائخ کے عقد میں آئیں۔ان سے ایک لڑکا پیدا ہواجس کا نام قوام الدین تھا۔وہ ابھی صغر سنی ہی میں تھے کہ ان کے والد نے رحلت فرمائی۔سید رضی الدین علی کی دوسری صاحبزادی فخرالدین محمد بن کتیلہ حسینی کے عقد میں آئیں۔ان سے ایک صاحبزادے علی الہادی تشریف لائے جو لاولد ،والد کی زندگی ہی میں انتقال فرما گئے۔قوام الدین کے دو صاحبزادے ہوئے۔ایک عبداللہاور دوسرے نجم الدینتھے جو نقیب بغداد و حلّہ و سامرا ہوئے اور والد کے بعد نقیب ِنقبا ہوئے۔775ھ میں وفات پائی۔
Anvar e Hasanah
٣۔ علامہ سید عبدالکریم تیسرے بھائی تھے اور قوت حافظہ اور فہم و فراست میں ممتاز تھے۔آپ نے کتاب ”فرحةالغریٰ” تصنیف فرمائی۔آپاجل عالم دین اور یگانہ گا ر ہستی ہیں۔ ٤۔ علامہ ابوالقاسم علی چوتھے بھائی تھے۔ ٥۔سید مجد الدین عراق کے ”بنی طائوس”کی نامور شخصیت ہیں ۔آپ نے کتاب”البشارة” تصنیف فرمائی۔اس میں انہوں نے اخبار و آثارِ واردہ کا ذکر کیااورمغلوں کے غلبہ اور سلطنت ِعباسیہ کے خاتمہ کا ذکر کیا۔جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیاتو آپ کی بے حدتعظیم و تکریم فرمائی اور حلّہ،مشہدَین اور ان کے گرد و نواح کے لوگوں کے لیے خط امان دیا۔چنانچہ یہ لوگ کسی زحمت و تکلیف کے بغیر پرامن رہے۔ فِْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہُ لا یُسَبِّحُ لَہُ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِلا ة النور ٣٦ اُن گھروں میں جن کی تعظیم کا اللہ نے حکم دیا ہے اور جس میں اُس کا نام لیا جائے، جس میں صبح و شام اُس کی تسبیح کی جاتی ہے ۔
گھر فاطمہ زہرا کا بڑی شان کا گھر ہے یہ وحی کی منزل ہے یہ قرآن کا گھر ہے اِسلام کے ماحول میں ایمان کا گھر ہے مومن کی منافق کی یہ پہچان کا گھر ہے کچھ لوگ مرے جاتے ہیں اس رنج و محن میں اس گھر کا جو دروازہ ہے مسجد کے صحن میں اللہ نے اس گھر کو نبوت سے نوازا دنیا میں اسے دین ِشریعت سے نوازا عصمت سے امامت سے ولایت سے نوازا ہر فرد کو قرآن کی آیت سے نوازا سانچے میں مشیت کے یہ افراد ڈھلے ہیں سب چادرِ تطہیر کے سائے میں پلے ہیں
Anvar e Hasanah
یہ سارے شرف بنت ِرسالت کے لیے ہیں حوران ِجناں وقف اطاعت کے لیے ہیں جبریل ِامیں بچوں کی خدمت کے لیے ہیں خود آپ مصلے پہ عبادت کے لیے ہیں ڈیوڑھی پہ ملک صورتِ دربان ہیں حاضر درزی کی ضرورت ہے تو رضوان ہیں حاضر گردُوں سے اتر کر یہیں آتا ہے ستارا ملتا ہے یہیں آکے نبوت کا کنارا ہے نصب اسی گھر میں امامت کا منارا ہر فرد ہے یاں کشتی ِامت کا سہارا کچھ پھول ہیں کچھ گلشن ِعصمت کی کلی ہیں حسنین ہیں، زہرا ہیں، نبی اور علی ہیں یہ عزم کے فولاد اسی گھر میںملیں گے یہ نور کے اجساد اسی گھر میں ملیں گے
اس نوع کے افراد اسی گھر میں ملیں گے جبریل کے استاد اسی گھر میں ملیں گے تعلیم کا اتنا تو کم از کم اثر آئے چودہ میں سے ہر فرد محمدۖ نظر آئے ممکن نہیں امت کا قیاس آل ِنبیۖ پر یہ لوگ الگ لوگ ہیں، یہ گھر ہے الگ گھر اس گھر کے تو بچے بھی بدل دیتے ہیں اکثر انسانوں کی تقدیر فرشتوں کا مقدر راہب کو کئی لعل اسی گھر سے ملے ہیں فطرس کو پر و بال اسی در سے ملے ہیں
اللہ رے عزوشرفِ بنت ِ رسالت قندیل ِ حرم، شمعِ شبستانِ امامت رحمت ہیں محمدۖ تو یہ ہیں پارئہ رحمت وہ کل ِ نبوت تو یہ ہیں جزوِ نبوت آساں نہ کہو معرفت ِ ختم ِ رسل ۖ کو جو جزکو نہ سمجھا ہو وہ کیا سمجھے گا کل کو اَمْ یَحْسُدُوْنَ الْنَّاسَ عَلیٰ مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ ج النساء ٥٤
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ