لفظ ”مولانا” سے چِڑنے لیکن شیخ الاسلام کہلوانے کے جنون کی حد تک شوقین مولانا طاہر القادری ایک دفعہ پھر حکمرانوں پر حملہ آور ہو گئے لیکن اِس دفعہ وہ نیلسن منڈیلا جیسا انقلاب لانے کے لیے آئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ نیلسن منڈیلا کا انقلاب تھا، یہ طاہر القادری کا انقلاب ہو گا۔ لیکن نیلسن منڈیلا نے تو کئی عشرے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن مولانا صاحب نے شاید پکڑے جانے کے خوف سے محترم الطاف حسین کی طرح فی الحال ”ویڈیو لنک” کے ذریعے خطاب میں ہی عافیت جانی۔ غالباََ اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ جب انقلاب کی فصل پَک جائے گی تو پھر کینیڈا سے تشریف لائیں گے۔ پہلے وہ ”سیاست نہیں ، ریاست بچاؤ” کا نعرہ لے کر اُٹھے تھے لیکن اب کی بار یہ نعرہ ”انقلاب یا شہادت” میں بدل دیا گیا ہے۔ اپنے ہر خطبے اور انٹرویو میں اپنے جھوٹے سچے کارنامے گنوانے والے انتہائے نرگسیت کا شکار مولانا طاہر القادری نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے وہی ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جو بھٹو مرحوم نے استعمال کیا تھا۔
مولانا نے ہر بیکار کو کاروبار ، ہاری کو زمین، بے گھر کو پانچ مرلے کا گھر اور مفلس کو روٹی کپڑا دینے کی نوید سنائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ جب ہمارا انقلاب آئے گا تو ایک سال کے اندر دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا ۔عوام کو خوش نما خواب دِکھا کر بیوقوف بنانے والے مولانا صاحب شاید یہ نہیں جانتے کہ گھٹنوں کے بَل رینگتی جمہوریت اب بلوغت کو پہنچ چکی اور قوم شعوری پختگی کی بہت سی منازل طے کر چکی ہے۔اب وہ کسی مداری یا شعبدہ باز کی باتوں میں آنے والی نہیں ۔محترم عمران خاں صاحب پورے خلوص کے ساتھ قومی بیداری کا پرچم بلند کرکے اُٹھے لیکن جونہی اُنہوں نے” آزمودہ چہروں” کو تحریکِ انصاف میں شامل کیا ، قوم نے بیزاری کا اظہار کر نے میں دیر نہیں لگائی۔
پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دَورِ حکومت میں عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی تو عوام نے اُسے صرف سندھ تک محدود کر دیا ۔مولانا کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب قوم صرف ٹھوس پروگرام اور قابلِ یقین لائحہ عمل پر ہی اعتماد کرتی ہے اور بقول نظیر اکبر آبادی اب تویہ عالم ہے کہ کَل جگ نہیں، کَر جگ ہے یہ، یاں دِن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
Muslim League N
مسلم لیگ (ن) حصولِ حکومت کے بعد اب اپنے آپ کو بُری طرح گرفتارِ بلا محسوس کر رہی ہے حالانکہ اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو نواز لیگ کم کم ہی قصوروار نظر آتی ہے۔ اُسے پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک قحط زدہ ملک ملا جسے سنبھالنا شاید کسی کے بَس میں بھی نہ ہوتا۔ اور اِس جنجال سے نکلنے کی بھرپور تگ و دَو کے باوجود عوام اُسے مزید وقت دینے کو تیار نہیں۔ نواز لیگ نے جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان تقریباََ عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔ وزیرِ اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی چین کا دورہ کیا اور چین کو ٹرانسپورٹ کان کنی اور نیوکلیئر انرجی میں سرمایا کاری کی طرف مائل کیا۔ پھر مَن موہن سنگھ، حامد کرزئی اور بارک اوباما کے علاوہ برادر اسلامی ملک ترکی کے وزیرِ اعظم سے ملا قات کی۔
آج ترکی مختلف منصوبوں میں پاکستان کی بھرپور معاونت کر رہا ہے۔ توانائی کے سنگین بحران پر قابو پانے کے لیے ترکمانستان اور ایران سے گیس کے علاوہ یورپ سے سولر انرجی کی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یورپی یونین کو ٹیکسٹائل مصنوعات کی بَر آمد ہے جس سے کپڑے کی صنعت کا پہیہ رواں ہو جائے گا اور بے روزگاری میں قابلِ ذکر کمی آئے گی ۔اِس کے باوجود بھی نواز لیگ کی مقبولیت کا گراف دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے جس کی واحد وجہ یہ ہے کہ عوام کو مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے اور قوم میں اتنا صبر و قرار باقی نہیں کہ وہ حکومت کو اپنے منصوبوں پر عمل در آمد کے لیے مزید وقت دے سکے ۔جبکہ دوسری طرف مولانا طاہر القادری شیخ چلّی کے ایسے منصوبے لے کر وارد ہو ئے ہیں جن کی تکمیل کے لیے مولانا کو ایک اور جنم لینا ہو گا ۔اگر تیس چالیس سال پہلے مولانا نے قوم کو یہ خواب دکھائے ہوتے تو شاید وہ بھی بھٹو مرحوم کی طرح ”کلین سویپ” کر جاتے لیکن فی زمانہ ”ایں خیال است و محال است و جنوں” ۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ ضروری ہے۔اُنہوں نے فرمایا کہ حضرت قائدِ اعظم کی روح مجرموں سے سوال کرتی ہے کہ ”کیا میں نے دو سو خاندانوں کے لیے پاکستان بنا کر دیا تھا”؟۔ واقعی پاکستان دو سو خاندانوں کے لیے تو نہیں بنا تھا لیکن دین کے اُن نام نہاد ”ٹھیکیداروں” کے لیے بھی ہر گز نہیں بنا جن کا جب جی چاہتا ہے ملک کو مفلوج کرنے آ دھمکتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی شخص نے قائدِ اعظم سے پوچھا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ؟۔قائدِ اعظم نے مسکرا کر کہا ”میرا وہی فرقہ ہے جو میرے نبیۖ کا تھا ” ۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے جو کچھ کہا وہ قابلِ ستائش ہے لیکن پہلے اُنہیں یہ کام اپنے گھر سے شروع کرنا چاہیے ۔سبھی جانتے ہیں کہ مولانا کِس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اِس لیے سب سے پہلے تو مولانا کو اپنا فرقہ ترک کرنا ہو گا ، اِس کے بعد ہی وہ کسی دوسرے کو فرقہ واریت کے خاتمے کا درس دے سکتے ہیں ۔اپنے فرقے سے چمٹے رہنے کی صورت میں کون ہے جو اُن کے اِس ”درس” پر کان دھرے گا ؟۔مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ” ہمیں مُلّا اِزم چاہیے نہ انتہا پسندی۔
انتہا پسندی کا دینِ مبیں سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیونکہ میرے دین میں جا بجا میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا گیا ہے ۔ایک عالمِ دین کی حیثیت سے مولانا صاحب کیا یہ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ کیا میانہ روی اسی کا نام ہے کہ خود تو کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کردہ پُر تعیش کنٹینر میں استراحت فرمائی جائے اور اندھے عقیدت مندوں ، عورتوں ، شیرخوار بچوں ، دیہاتیوں ، دیہاڑی داروں اور اپنے سکولوں کے اساتذہ کو لہو جماتی سردی میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جائے ۔کیا دینِ مبیں کا یہی درس ہے کہ خود تو کینیڈا میں اپنے گرما گرم گھر میں بیٹھ کر قوم کو ایک دفعہ پھر شدید ترین سردی میں مال روڈ پر احتجاج کا حکم صادر فرمایاجائے ؟۔ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مولانا صاحب نے پچھلے سال کیا اور اب بھی کر رہے ہیں ، وہ سب انتہا پسندی کے زمرے میں ہی آتا ہے ۔رہی مُلّا اِزم کی بات تو بہتر تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لفظ ”مُلّا” کی تشریح بھی کر دیتے کیونکہ ہم تو آج بھی ڈاکٹر صاحب کو مُلّا ہی سمجھتے ہیں ۔
مولانا فرماتے ہیں کہ” 1947ء میں ملک نہیں تھا ، قوم تھی آج ملک ہے لیکن قوم نہیں ”۔یہ بجا کہ قوم آج مختلف مذہبی اور لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے لیکن اِس میں قصور قوم کا نہیں بلکہ اُن کا ہے جو مذہبی منافرت پھیلاکر اپنے آپ کو ”شیخ الاسلام ” کہلواتے اور اپنے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القابات لگوا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔یا پھرقصور اُن کا جو لسانی منافرت کے ذریعے ہر وقت ”کرسی” کے حصول کی خاطر رال ٹپکاتے رہتے ہیں ۔ اِس کے باوجود بھی بقولِ اقبال نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی