میرے دور کا ارطغرل

Ertugrul Ghazi

Ertugrul Ghazi

تحریر : طارق حبیب

میں اگرچہ ڈرامے نہیں دیکھتا کیونکہ آجکل ڈراموں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اسلئے صرف انڈین موویز دیکھتا ہوں وہ بھی آئٹم نمبرز والی تاکہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے مگر ارطغرل کی شہرت سے مجبور ہوکر ڈرامہ دیکھنا شروع کردیا۔

آتے ہیں اصل بات کی جانب۔۔۔۔

ڈرامہ کیسا تھا ۔۔۔۔اس کے کرداروں کی اداکاری کیسی تھی ۔۔۔۔۔پلاٹ ، ڈائریکشن، پروڈکشن وغیر وغیرہ ۔۔۔۔ سب کو رکھیں ایک طرف ۔۔۔۔۔پہاڑ ،پگڈنڈیاں ،سبزہ۔۔۔۔تلوار، گھوڑے، کمانیں۔۔۔۔۔سب میں کشش ہے۔ ہے نا؟؟؟

اچھا سنو۔۔۔۔

ارتغرل قائی قبیلے کی کہانی۔۔۔۔ایسا قبیلہ جس کو سخت موسموں میں قحط و بھوک کا سامنا تھا۔۔۔۔غربت نے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔اس کے سردار کا بیٹا صلیبیوں سے مہمانوں کو آزاد کرواتا ہے ۔۔۔۔جس کے بعد قائی قبیلے کی مشکلات شروع ہوتی ہیں ۔۔۔۔ان سے کہا جاتا ہے مہمان واپس کردو ورنہ بھسم کردئے جائو گے۔۔۔۔۔تم ہماری طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔ہر جانب سے لشکر روانہ ہوچکے ہیں ۔۔۔۔تمہیں کچل کر رکھ دیں گے ۔۔۔۔تم مٹھی بھر کیا ہمارا مقابلہ کرو گے ۔۔۔۔۔مگر قائی قبیلے کا سردار جواب دیتا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔یہ ہماری روایات نہیں ، ہم مہمان واپس نہیں کرتے ۔۔۔۔اپنے بھی خلاف غیر بھی مخالف۔۔۔۔
۔
یہاں تھوڑی دیر رُکو ۔۔۔۔اور سنو ۔۔۔۔یہ کہانی ماضی قریب میں بھی گزری ہوئی نہیں لگتی؟؟؟؟

ہاں بتائو ناں۔۔۔۔۔۔
۔
ایک افغانی قبیلہ اس کے ایسے مہمان جو قبیلے والوں نے آزاد نہیں کروائے تھے بلکہ وہ مہمان ریچھ کے مقابل ان قبیلے والوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑے تھے پھر افغانی ’’ارتغرل‘‘ سے کہا جاتا ہے کہ مہمان ہمیں دے دو مگر افغانی ’’ارتغرل‘‘ بھی وہی جواب دیتا ہے جو قائی ارتغرل نے دیا ۔۔۔۔ہماری روایات نہیں ۔۔۔۔پھر افغانی ’’ارتغرل‘‘کو بھی وہی دھمکیاں ملتی ہیں ۔۔۔۔ مہمان واپس کردو ورنہ بھسم کردئے جائو گے۔۔۔۔۔تم ہماری طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔ہر جانب سے لشکر روانہ ہوچکے ہیں ۔۔۔۔تمہیں کچل کر رکھ دیں گے ۔۔۔۔اڑوس پڑوس سے بھی ’’علماء‘‘ بھیجے جاتے ہیں جو مرد درویش کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔مگر اس کا وہی جواب ہماری روایات نہیں ۔۔۔۔پھر اس نے بھی حالات دیکھے ۔۔۔۔۔پابندیاں، بھوک ، قحط افلاس، دوست دشمن بن گئے ۔۔۔۔سینے پر وار سہتے رہے۔۔۔کم ظرفوں کی طرف سے لگائے جانے والے گھائو کمر پر بھی برداشت کئے ۔۔۔ دنیا کی 29 قوموں سے لڑا افغانی ارتغرل اور ۔۔۔۔رب زولجلال نے سرخ تو کیا تو آج اس سے مذاکرات کی بھیک اور عزت کا راستہ مانگا جارہا ہے۔۔۔۔

مگر جانتے ہیں یہ ارتغرلوں کے جواب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم اپنی روایات کے خلاف نہیں جاسکتے ۔۔۔۔مہمان نہیں دیں گے۔۔۔۔استاد محترم کہتے ہیں کہ دلیری و بزدلی ایک سے دوسرے کو لگنے والی چیزیں ہیں ۔۔۔۔تو یہ ارتغرل تو بس استعارہ ہے ورنہ ایسے کردار ہر دور میں جنم لیتے ہیں ہر دور میں تاریخ رقم کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

تاریخ دان ابتداء میں ان کرداروں کو ظالم جابر دکھاتے ہیں پھر جب کوئی اردگان آتا ہے اور ارتغرل پر ڈرامہ بنایا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ارتغرل اصل میں ہیرو تھا۔ یقینی طور پر افغانی ارتغرل مستقبل میں ہیرو قرار پائیں گے جب یہاں بھی کوئی اردگان آئے تو اس سرزمین سے بھی کوئی اٹھ کر ڈرامہ بنائے گا۔ جس کا پلاٹ ،کردار، ڈائریکشن ۔۔۔۔قدرے مختلف ہونگے مگر کرداروں کی کہانی سو فیصد ایک جیسی ہوگی۔

اس دنیا کے اسٹیج پر ارتغرل آتے ہیں ۔۔۔۔اپنے کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔۔۔انہیں ستائش کی غرض نہیں ہوتی ۔۔۔۔نہ اس سے غرض ہوتی ہے کہ لمحہ موجود میں ان کے ساتھ کون کھڑا ہوا ۔۔۔۔انہیں تو تاریخ یاد کرتی ہے۔شکاری تاریخ لکھتے ہیں اور ارتغرل تاریخ بناتے ہیں۔

ارتغرل کا جنم ایسی قوموں میں ہوتا ہے ۔۔۔۔جن کی خواتین بنائو سنگھار جانچنے کے لئے چمکدار ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہیں۔ جن کے مرد سامان حرب کے استعمال میں مہارت کو شان سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔ایک ارتغرل وہ بھی تھا جس نے گھوڑا دریا میں ڈالا تو وقت کا فرعون پکار اٹھا ۔۔۔۔کہ اس کی پشت پر تیر مت چلانا ۔۔۔۔بہت کم مائیں ایسے بہادر جنم دیتی ہیں۔
۔
پتا ہے ارتغرلوں کی کمی نہیں ۔۔۔۔نہ ان کی داستانوں کی کمی ہے ۔۔۔۔مگر وہ کیا ہے ناں کہ جیسے ارتغرل نے کہا ’’ اجداد کے قصے بچوں کو سلانے کے لئے نہیں ،مردوں کو جگانے کے لئے سنائے جاتے ہیں‘‘ ۔۔۔۔جگانے کے لئے ، مردوں کو۔۔۔۔جی ہاں مردوں کو ۔۔۔۔ ورنہ ارتغرلوں کو مہمان واپس کرنے کے مشورے دینے والے مصلحت کا شکار نامرد بھی ہر دور ۔۔۔۔ میں موجود ہوتے ہیں ۔۔۔۔اور تاریخ جو بھی لکھے ہر دور کی نوجوان نسل ایسے مشورے دینے والوں کو اسی نظر سے دیکھتی ہے جیسے آج کی نوجوان نسل ارتغرل ڈرامہ میں یہ مشورے دینے والوں کو دیکھ رہے ہیں۔

ورنہ کیا ہے کہ تھیٹر میں ڈرامہ ختم ہونے پر جب پردہ گرتا ہے تو تالیاں سیٹیاں بجاتے ہوئے اٹھ کر سب ہی چلے جاتے ہیں مگر جب اس دنیا کا تھیٹر ختم ہوگا اور پردہ گرے گا تو پتا چلے گا کہ کامیاب تو صرف ارتغرل ہی ہوئے ہیں۔پردہ گرنے پر تالیاں بجانے والے تو بس تالیاں ہی بجاتے رہ گئے۔۔۔!!

تحریر : طارق حبیب